تو چل اے گريہ، پھر اب کي بار بھي ہم ہي
تري انگلي پکڑتے ہيں تجھے گھر لے کے چلتے ہيں
وہاں ہر چيزويسي ہے کوئي منظر نہيں بدلا
ترا کمرہ بھي ويسے ہي پڑا جس طرح تونے
اسے ديکھا تھا چھوڑا تھا
ترے بستر کے پہلو ميں رکھي اس ميز پر اب بھي
دھرا ہے مگ وہ کافي کا
کہ جس کہ خشک اور ٹوٹے کناروں پر
ابھي تک وسوسوں اور خوشبوں کي جھاگ کے دھبے نماياں ہيں
قلم ہے جس کي نب پر رت جگوں کي روشنائي يوں لرزتي ہے
کہ جيسے سوکھتے ہونٹوں پہ پپڑي جمنے لگتي ہے
وہ کاغذ ہيں
جو بے روئے ہوئے کچھ آنسوئوں سے بھيگے رہتے ہيں
ترے چپل بھي رکھے ہيں
کہ جن کے بے ثمر تلووں سے وہ سب خواب لپٹۓ ہيں
جو اتنا روندے جانے پر بھي اب تک سانس ليتے ہيں
ترے کپڑے
جو غم کي بارشوں ميں دھل کے آئے تھے
مري الماريوں کے ہنگريوں میں اب بھي لٹکے ہيں
دلاسوں کا وہ گيلا توليہ
اور ہچکيوں کا ادھ گھلا صابن
چمکتے واش بيسن ميں پڑے ہيں اور
ٹھنڈے گرم پاني کي وہ دونوں ٹونٹياں اب تک
رواں ہيں تو جنھيں اس دن
کسي جلدي ميں چلتا چھوڑ آيا تھا
دريچے کي طرف ديوار پر لٹکي گھڑي
اب بھي ہميشہ کي طرح
آدھا منٹ پيچھے ہي رہتي ہے
کلنڈر پر رکي تاريخ نے پلکيں نہيں جھپکيں
اور اس کے ساتھ آويزاں
وہ اک منظر
وہ ايک تصوير جس ميں وہ
مرے شانے پہ سر رکھتے مرے پہلو ميں بيٹھي ہے
مري گردن اور اس کے گيسوئوں کے پاس اک تتلي
خوشي سے اڑتي پھرتي ہے
کچھ ايسا سحر چھايا ہے
کہ دل رکتا ہوا چلتي ہوئي محسوس ہوتي ہے
مگر اے موسم گريہ
اسي ساعت
نجانےکس طرف سے تو چلا آيا
ہمارے بيچ سے گزرا
ہمارے بيچ سےتو اس طرح گزرا
کہ جيسے دو مخالف راستوں کا کاٹتي سرحد
کي جس کے ہر طرف بس دوريوں کي گرد اڑتي ہے
اسي اک گرد کي تہہ سي
تجھے دروازے کي بيل پر جمي شايد نظر آئے
کوئي تصوير کے اندر کمي شايد نظر آئے
تمنا سے بھري آنکھيں جو ہر دم مسکراتي تھيں
اب ان آنکھوں کے کونوں ميں نمي شايد نظر آئے
[MENTION=18675]pink rose[/MENTION]
Comment