کیلنڈر
آج یونہی شام کو ‘ اچانک
خیال آیا جانے کونسی تاریخ ہے
کیلنڈر کے پاس ‘ جاکر قدم‘ تھم سے گئے
اور ذہن ‘ چونک گیا
"یہ تو کچھ آشنا سی تاریخ ہے
میں نے ستون کو تھام کر سوچا
یہ تو وہی‘ جو مدتوں
دل پر جمی رہی اور۔۔
"اس حسیں شام کی مہک
جب تمہاری ‘
باتوں کا سحر ‘ تمہارے سراپے کا نکھار
میرے رگ و پے میں اتر کر‘
مرے دل کو ‘اک درد۔۔۔۔سا دے گیا
مگر اب۔۔۔۔(میں نے سوچا)
اب تو زمانہ بیت گیا۔۔۔کچھ یاد کئے
مگریونہی ‘ کبھی کبھی۔۔
کیلنڈر کے پاس جاکر۔۔۔
آنکھیں برسوں پہلے کے منظر
کو دہراتی ہیں۔۔۔
Comment