اندوہِ وفا
آج وہ آخری تصویر جلا دی ہم نے
جِس سے اُس شہر کے پھولوں کی مَہک آتی تھی
آج وہ نکہتِ آسودہ لُٹا دی ہم نے
عقل جِس قصر میں اِنصاف کیا کرتی تھی
آج اُس قصر کی زنجیر ہِلا دی ہم نے
آگ کاغذ کے چمکتے ہوئے سینے پہ بڑھی
خواب کی لہر میں بہتے ہوئے آئے ساحل
مُسکراتے ہوئے ہونٹوں کا سُلگتا ہوا کرب
گُنگُناتے ہوئے عارِض کا دمکتا ہوا تِل
جگمگاتے ہوئے آویزوں کی مُبہِم فریاد
سرسراتے ہوئے لمحوں کے دھڑکتے ہوئے دِل
ایک دِن رُوح کا ہر تار صدا دیتا تھا
کاش ہم بِک کے بھی اس جنسِ گراں کو پالیں
قرضِ جاں دے کے متاعِ گُذراں کو پالیں
خود بھی کھوجائیں پر اُس رمزِ نِہاں کو پالیں
اور اب یاد کہ اُس آخری پَیکر کا طِلِسْم
قِصّۂ رفتہ بنا، خواب کی باتوں سے ہوا
اُس کا پیار، اُس کا بدن، اُس کا مہکتا ہوا رُوپ
آگ کی نذر ہوا اور اِنہی باتوں سے ہُوا
شاعر: مصطفیٰ زیدی
Comment