تو کیا ہو گا؟
یہی ہوگا کہ تم مجھ سے بچھڑ جاؤ گی
جیسے رنگ سے خوشبو
بدن سے ڈور سانسوں کی!
گرفتِ شام سے ناراض سورج کی کرن
اِک دم بچھڑ جائے!
کہ جیسے رات کے پچھلے پہر
خوابیدہ گلیوں
نیم خوابیدہ گھروں میں زلزلہ آئے
تو اِک بستی اُجڑ جائے!
کہ جیسے دھوپ کے صحرا میں
تشنہ لَب بھٹکتے بھولتے بے گھر پرندوں
سخت جاں پیڑوں بگولوں کے بھنور میں
اپنی چھاؤں بانٹتا بادل نُچڑ جائے!
تو کیا ہو گا؟
یہی ہوگا کہ میں تم سے جُدا ہو کر
کہیں تقسیم ہو جاؤں گا
لمحوں میں بکھر جاؤں گا
تنہائی کے اندھے غار کی تہہ میں اُتر جاؤں گا
تم سے روٹھ کر خود سے خفا ہو کر !!
تو کیا ہو گا؟
یہی ہو گا
نہ کوئی زلزلہ آئے گا
کوئی آنکھ نم ہو گی نہ سناّٹا
بچھے گا شہر کی گلیوں میں
زلفیں کھول کر روئے گی تنہائی
نہ شہرِ دل فگاراں میں
کوئی محشر بپا ہو گا!
تو کیا ہو گا؟
تمھارے ساتھ
اپنے رنگ ہوں گے!
روشنی ہو گی !
ستارے بانٹتے خوابوں کا
اپنا سِلسلہ ہو گا !
تو کیا ہو گا؟
مگر سوچو کسی تنہا سفر میں
جب میری آواز کے بے ربط رشتوں سے
تمھارا سامنا ہو گا!
تو کیا ہو گا؟
Comment