مجھ سے باہر ملو!
مجھ سے باہررہو!
مجھ کو دیکھو مگر دور سے دیکھنا
میری آنکھوں میں محرومیوں کے بھنور
میری پلکوں پہ صدیوں کی گرد سفر
میرا چہرہ ہوس کے پسینے میں تر!
اتنے نزدیک سے دل میں مت گھولنا
میرے ہونٹوں پہ چسپاں سیہ آئینے
آئینے ہیں جنھیں ٹوٹنا بھی تو ہے
ہاتھ میں ہاتھ دیتے ہوۓ سوچنا
سوچنا ایک دن.... ایک دن بھی نہیں
ایک پل ایک گھڑی
ہاتھ کو ہاتھ سے چھوٹنا بھی تو ہے
مجھ سے باہر ملو
مجھ سے باہر رہو!
میرا جلتا بدن... اک الاؤ کی صورت ہے روشن سدا
اک الاؤ کہ جس میں پگھلتی رہیں وقت کی ہڈیاں
خوایشوں کے کفن!!
میرا جلتا بدن جس کا ایندھن بنے
بے جنازہ سخن!
دیکھنا چھو نہ جائے کہیں بے سبب
موم کی شاخ سے آگ کا پیرہن ....!!
میرے اندر کی بستی میں چاروں طرف
ایک ویران در کب سے آباد ہے
دیکھنا میرے اندر اترنے کی دھن
تم کو پتھر نہ کر دے بہت دیکھنا
میرے اندر ابداسی کی رت دیکھنا
مجھ سے باہر ملو
مجھ سے باہر رہو
میرے اندر اندھیروں کی برسات ہے
میرے اندر اماوس بھری رات ہے
مجھ سے باہر ملو
مجھ سے باہر رہو
محسن نقوی
Comment