Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر

    زُلف و رُخ کے ساۓ میں زندگی گزاری ہے
    دُھوپ بھی ہماری ہے چھاؤں بھی ہماری ہے


    غم گُسار چہروں پر اعتبا ر مت کرنا
    شہر میں سیاست کے دوست بھی شکاری ہے


    موڑ لینے والی ہے ، زندگی کوئی شاید
    اب کے پھر ہواؤں میں ایک بیقراری ہے


    حال خوں میں ڈوبا ہے کل نہ جانے کیا ہوگا
    اب یہ خوفِ مستقبل ذہن ذہن طاری ہے


    میرے ہی بزرگوں نے سربلندیاں بخشیں
    میرے ہی قبیلے پر مشق سنگ باری ہے


    اک عجیب ٹھنڈک ہے اُس کے نرم لہجے میں
    لفظ لفظ شبنم ہے بات بات پیاری ہے


    کچھ تو پائیں گے اُس کی قربتوں کا خمیازہ
    دل تو ہو چکے ٹکڑے اب سروں کی باری ہے


    باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
    اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے


    کہہ دو میر و غالب سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
    وہ صدی تمھاری تھی یہ صدی ہماری ہے


    کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں
    کل بھی جنگ جاری تھی آج بھی جنگ جاری ہے


    گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر
    .....شہر میں ہمارے تو جو بھی ہے مداری ہے




  • #2
    Re: گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر

    کربلا نہیں لیکن جھوٹ اور صداقت میں
    کل بھی جنگ جاری تھی آج بھی جنگ جاری ہے

    bohat khoob


    مزا برسات کا چاہو تو ان آنکھوں میں آبیٹھو
    ساہی ہے، سفیدی ہے شفق ہے ابر باراں ہے


    roseroseroseroseroseroserose

    Comment


    • #3
      Re: گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر

      bohat khoob

      Comment


      • #4
        Re: گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر

        باپ بوجھ ڈھوتا تھا کیا جہیز دے پاتا
        اس لئے وہ شہزادی آج تک کنواری ہے


        bohot khoob

        Comment


        • #5
          Re: گاؤں میں محبت کی رسم ہے ابھی منظر

          :tali:
          buhat umda

          Comment

          Working...
          X