سن رائیگاں
وہی رنجشیں ، وہی رغبتیں
وہی سلسلہ کسی یاد کا
وہی راستے ، وہی فاصلے
وہی رفتگان گریز پا
کبھی جذب و شوق کے درمیاں
کبھی رنج و درد کے امتحاں
وہی رنگ و رقص حیات و جاں
وہی ابتلا، وہی مبتلا
کسی رات چاند کو پا لیا
تو اداس گھر کو سجا لیا
کسی شام درد فراق نے
یونہی دل سے ہاتھ اٹھا لیا
پس حرف اب بھی رکی رہی
مرے دل کی سہمی ہوئی صدا
وہی التفات کی التجا
وہی بے نوا وہی بے روا
اسی التماس کے ماسوا
سن رائیگاں سے ملا ہے کیا۔۔۔
گلناز کوثر
وہی رنجشیں ، وہی رغبتیں
وہی سلسلہ کسی یاد کا
وہی راستے ، وہی فاصلے
وہی رفتگان گریز پا
کبھی جذب و شوق کے درمیاں
کبھی رنج و درد کے امتحاں
وہی رنگ و رقص حیات و جاں
وہی ابتلا، وہی مبتلا
کسی رات چاند کو پا لیا
تو اداس گھر کو سجا لیا
کسی شام درد فراق نے
یونہی دل سے ہاتھ اٹھا لیا
پس حرف اب بھی رکی رہی
مرے دل کی سہمی ہوئی صدا
وہی التفات کی التجا
وہی بے نوا وہی بے روا
اسی التماس کے ماسوا
سن رائیگاں سے ملا ہے کیا۔۔۔
گلناز کوثر
Comment