بارش
یہ بوندیں ہتھیلی پر
رہ رہ کے لرزتی ہیں
تھم تھم کے مچلتی ہیں
اور آہنی ریکھائیں
گم نام حرارت سے
جلتی ہیں ، سنبھلتی ہیں
چپ چاپ پگھلتی ہیں
نمناک فضائوں کے
حیران دریچوں سے
کرنیں سی جھلکتی ہیں
کچھ کہہ کے دبے قدموں
یکبار پلٹتی ہیں
آوازوں کے جنگل سے
کچھ کانچ بھری کلیاں
کچھ سر بفلک شاخیں
کھڑکی کے بدن تک بھی
مشکل سے پہنچتی ہیں
آوازوں کے جنگل سے
خاموشی کی بیلیں جو
اک دل سے نکلتی ہیں
اک دل میں اترتی ہیں
گلناز کوثر
Comment