پاگل عورت کے لیے ایک نظم
انجانی بے درد مسافر
بارہ برسوں سے سڑکوں پہ بھٹک رہی ہے
جیسے ہوش کے آخری لمحے
اس نےسفر کی ٹھانی ہو
پھر اک اندھی بہری منزل
اس کی آنکھ سے چپک گئی ہو
پھر اک گم صم گونگا رستہ
اس کے پیر سے لپٹ گیا ہو
پھر اک پتھر جیسا وعدہ
اس کی روح پہ آن دھرا ہو
اور وعدے کی سل پر جیسے
بارہ برس کی گرد کے نیچے
سہما سا اک خواب پڑا ہو
روکھےسوکھے بالوں میں اب
وقت کی چاندی پھیل رہی ہے
بوسیدہ کپڑوں کی درزیں
روزن بنتی جاتی ہیں
لیکن دھول بھری آنکھوں سے
آس کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں
لیکن میل بھرے ہاتھوں نے
زاد سفر کو تھام رکھا ہے
اور خالی دل سوچ رہا ہے
آج تو اس کو آنا ہوگا ۔۔۔
گلناز کو ثر
انجانی بے درد مسافر
بارہ برسوں سے سڑکوں پہ بھٹک رہی ہے
جیسے ہوش کے آخری لمحے
اس نےسفر کی ٹھانی ہو
پھر اک اندھی بہری منزل
اس کی آنکھ سے چپک گئی ہو
پھر اک گم صم گونگا رستہ
اس کے پیر سے لپٹ گیا ہو
پھر اک پتھر جیسا وعدہ
اس کی روح پہ آن دھرا ہو
اور وعدے کی سل پر جیسے
بارہ برس کی گرد کے نیچے
سہما سا اک خواب پڑا ہو
روکھےسوکھے بالوں میں اب
وقت کی چاندی پھیل رہی ہے
بوسیدہ کپڑوں کی درزیں
روزن بنتی جاتی ہیں
لیکن دھول بھری آنکھوں سے
آس کی کرنیں پھوٹ رہی ہیں
لیکن میل بھرے ہاتھوں نے
زاد سفر کو تھام رکھا ہے
اور خالی دل سوچ رہا ہے
آج تو اس کو آنا ہوگا ۔۔۔
گلناز کو ثر
Comment