یہ کہنہ محل، جس کے رنگیں دریچوں سے لپٹی ہوئی عشق پیچاں کی بیلیں
منڈیروں، ستونوں پہ پھیلی ہوئی سبز کائی
سرِ شام چلتے ہوئے سرد جھونکوں میں سسکاریاں بھر رہی ہے
جہاں اب ہوا، اس کے پائیں چمن کے خزاں دیدہ پیڑوں کی شاخوں
پہ سرگوشیوں کے شگوفے کھلانے سے شرما رہی ہے
یہاں ۔ ایک دن تھا کہ شیریں صدائوں کے جھنڈ
آرزوئوں کے بھٹکے ہوئے قافلوں کے لیے راحتوں کے نشاں تھے
یہاں ہر دریچہ
حسیں، ہمہماتے، وفا کش چہروں کی آماجگاہ تھا
یہ باغ ان گنت خوشبوئوں، چہچہاتے پرندوں،
گھنیرے درختوں کی اک دل نشیں جلوہ گاہ تھا
یہ چپ چاپ سنگین عمارت، تب اتنی پرانی نہیں تھی
مگر آج جس سمت دیکھو
نگاہوں کے کشکول میں
سونے بام و در وسقف
سوکھے درختوں سے جھڑ کر گرے زرد پتوں، چٹختی ہوئی ٹہنیوں کے
سوا کچھ نہیں ہے
منڈیروں، ستونوں پہ پھیلی ہوئی سبز کائی
سرِ شام چلتے ہوئے سرد جھونکوں میں سسکاریاں بھر رہی ہے
جہاں اب ہوا، اس کے پائیں چمن کے خزاں دیدہ پیڑوں کی شاخوں
پہ سرگوشیوں کے شگوفے کھلانے سے شرما رہی ہے
یہاں ۔ ایک دن تھا کہ شیریں صدائوں کے جھنڈ
آرزوئوں کے بھٹکے ہوئے قافلوں کے لیے راحتوں کے نشاں تھے
یہاں ہر دریچہ
حسیں، ہمہماتے، وفا کش چہروں کی آماجگاہ تھا
یہ باغ ان گنت خوشبوئوں، چہچہاتے پرندوں،
گھنیرے درختوں کی اک دل نشیں جلوہ گاہ تھا
یہ چپ چاپ سنگین عمارت، تب اتنی پرانی نہیں تھی
مگر آج جس سمت دیکھو
نگاہوں کے کشکول میں
سونے بام و در وسقف
سوکھے درختوں سے جھڑ کر گرے زرد پتوں، چٹختی ہوئی ٹہنیوں کے
سوا کچھ نہیں ہے