اپنی اپنی ذات میں محسور کر ڈالا گیا
آدمی کو آدمی سے دور کر ڈالا گیا
ہس نے پھیلائی یہاں فکر و نظر کی روشنی
زہر پینے پر اسے مجبور کر ڈالا گیا
سچ کہا جس نے اسے سولی پہ چڑھوایا گیا
حاشیہ برادر کو تیمور کر ڈالا گیا
کھیل ایسا بھی مسیحاؤں نے کھیلا بارہا
زخم دے کر زخم کونا سور کر ڈالا گیا
یوں بھی امجد روشنی کے خواب دکھلائے گئے
دل غموں کی گرد سے مخمور کر ڈالا گیا
امجد جاوید
آدمی کو آدمی سے دور کر ڈالا گیا
ہس نے پھیلائی یہاں فکر و نظر کی روشنی
زہر پینے پر اسے مجبور کر ڈالا گیا
سچ کہا جس نے اسے سولی پہ چڑھوایا گیا
حاشیہ برادر کو تیمور کر ڈالا گیا
کھیل ایسا بھی مسیحاؤں نے کھیلا بارہا
زخم دے کر زخم کونا سور کر ڈالا گیا
یوں بھی امجد روشنی کے خواب دکھلائے گئے
دل غموں کی گرد سے مخمور کر ڈالا گیا
امجد جاوید
Comment