قابل اجمیری نے اگرچہ بہت کم عمر پائی لیکن اس کم عمری ہی میں انھوں نے جدید غزل پر اپنی قابلیت کی دھاک جما دی تھی۔قابل 27 اگست 1931ءکو اجمیر شریف میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام عبد الرحیم تھا۔ وہ شاعروں اور تخلیقی فن کاروں کے پسندیدہ مرض یعنی تپ دق میں مبتلا ہوئے اور 30 اکتوبر 1962ء کو عین جوانی میں اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ اس طرح انہیں دنیا میں رہنے کا صرف 31 برس کا عرصہ ملا اوراس میں بھی شاعری کے لیے بمشکل دس بارہ برس، لیکن انہیں جو وقت ملا اس میں انہوں نے جدید غزل کو بہت کچھ دیا۔ ان کی زندگی کا 31 برس کا عرصہ نہایت ہی ہنگامہ خیز اور پر شور تھا۔
’’کلیات قابل اجمیری‘‘ میں شہزاد احمد نے لکھا ہے:’قابل اجمیری کی ذاتی زندگی ایک طویل المیہ تھی لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر نے انہیں سیب کھانے کے لیے مشورہ دیا تھا تو ان کے پاس سیب خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ مگر اس کے باوجود اس ظالم دنیا میں ایک خاتون ایسی ضرور موجود تھیں جس نے کوئٹہ کے سینی ٹوریم میں قابل کی شریک حیات بننے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب اسے معلوم تھا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ پھر اس خاتون نے قابل اجمیری کے لیے ترک مذہب کر کے اسلام بھی قبول کیا تھا۔‘
ایک ایسا شاعر جس کی پوری زندگی المیہ رہی ہو اس سے درد و کرب کے علاوہ اور کسی چیز کی کیا توقع کی جا سکتی ہے لیکن ان سب کے باوجود قابل زمانہ میں رونما ہونے والے تغیرات سے بے خبر نہیں تھے۔ جن کی باز گشت ان کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ قابل نے درد و کرب کی کہانیاں تو بیان کی ہی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تغیرات کو بھی اپنی گرفت میں لیا ہے۔ اسی لیے قابل کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور شاید وقت گزرنے کے ساتھ اس کی معنویت میں اضافہ ہوتا جائے گا:
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیے
لیکن علاجِ تنگیِ داماں نہ کر سکے
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے
راستا ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا، میں یاد آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
نامرادی اپنی قسمت، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو، ہم کارواں تک آ گئے
انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہٴ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے
اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آ گئے
زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے
خود تمھیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ، ہم جہاں تک آ گئے
آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہٴ سود و زیاں تک آ گئے
قابل کو دوسروں کو تو کیا اپنے کو بھی پرکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ اس کے باوجود انہیں اپنی انفرادیت کا احساس تھا۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے مختلف اشعار میں کیا ہے۔کچھ غم زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
رہ گزار حیا ت میں ہم نے
خود نئے راستے نکالے ہیں
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
ابھی مشکل سے سمجھے گا زمانہ
نیا نغمہ نئی آواز ہوں میں
مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے
شکست ساز کی آواز ہوں میں
درد و کرب کے اس پیکر کا 30 اکتوبر 1962ء کو پاکستان کے حیدر آباد میں خاتمہ ہو گیا۔
کوئے قاتل میں ہمی بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی، آج ترا قرض چکا دیتے ہیں
’’کلیات قابل اجمیری‘‘ میں شہزاد احمد نے لکھا ہے:’قابل اجمیری کی ذاتی زندگی ایک طویل المیہ تھی لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جب ڈاکٹر نے انہیں سیب کھانے کے لیے مشورہ دیا تھا تو ان کے پاس سیب خریدنے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ مگر اس کے باوجود اس ظالم دنیا میں ایک خاتون ایسی ضرور موجود تھیں جس نے کوئٹہ کے سینی ٹوریم میں قابل کی شریک حیات بننے کا فیصلہ اس وقت کیا تھا جب اسے معلوم تھا کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ پھر اس خاتون نے قابل اجمیری کے لیے ترک مذہب کر کے اسلام بھی قبول کیا تھا۔‘
ایک ایسا شاعر جس کی پوری زندگی المیہ رہی ہو اس سے درد و کرب کے علاوہ اور کسی چیز کی کیا توقع کی جا سکتی ہے لیکن ان سب کے باوجود قابل زمانہ میں رونما ہونے والے تغیرات سے بے خبر نہیں تھے۔ جن کی باز گشت ان کے اشعار میں سنائی دیتی ہے۔ قابل نے درد و کرب کی کہانیاں تو بیان کی ہی ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ دنیا کے تغیرات کو بھی اپنی گرفت میں لیا ہے۔ اسی لیے قابل کی شاعری آج بھی زندہ ہے اور شاید وقت گزرنے کے ساتھ اس کی معنویت میں اضافہ ہوتا جائے گا:
تم نے مسرتوں کے خزانے لٹا دیے
لیکن علاجِ تنگیِ داماں نہ کر سکے
اک والہانہ شان سے بڑھتے چلے گئے
ہم امتیاز ساحل و طوفاں نہ کر سکے
راستا ہے کہ کٹتا جاتا ہے
فاصلہ ہے کہ کم نہیں ہوتا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
خیالِ سود نہ اندیشہ زیاں ہے ابھی
چلے چلو کہ مذاقِ سفر جواں ہے ابھی
رکا رکا سا تبسم، جھکی جھکی سی نظر
تمہیں سلیقہ بے گانگی کہاں ہے ابھی
سکونِ دل کی تمنا سے فائدہ قابل
نفس نفس غمِ جاناں کی داستاں ہے ابھی
تضادِ جذبات میں یہ نازک مقام آیا تو کیا کرو گے
میں رو رہا ہوں تو ہنس رہے ہو میں مسکرایا تو کیا کرو گے
مجھے تو اس درجہ وقتِ رخصت سکوں کی تلقین کر رہے ہو
مگر کچھ اپنے لیے بھی سوچا، میں یاد آیا تو کیا کرو گے
کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاؤ مرے لہو کی بہار کب تک
مجھے سہارا بنانے والو، میں لڑکھڑایا تو کیا کرو گے
ابھی تو تنقید ہو رہی ہے مرے مذاقِ جنوں پہ لیکن
تمہاری زلفوں کی برہمی کا سوال آیا تو کیا کرو گے
ابھی تو دامن چھڑا رہے ہو، بگڑ کے قابل سے جا رہے ہو
مگر کبھی دل کی دھڑکنوں میں شریک پایا تو کیا کرو گے
حیرتوں کے سلسلے سوزِ نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
نامرادی اپنی قسمت، گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو، ہم کارواں تک آ گئے
انکی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پر ہنسی
قصہٴ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے
اپنی اپنی جستجو ہے اپنا اپنا شوق ہے
تم ہنسی تک بھی نہ پہنچے ہم فغاں تک آ گئے
زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے
خود تمھیں چاکِ گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ، ہم جہاں تک آ گئے
آج قابل میکدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہلِ دل اندیشہٴ سود و زیاں تک آ گئے
قابل کو دوسروں کو تو کیا اپنے کو بھی پرکھنے کی فرصت نہیں ملی۔ اس کے باوجود انہیں اپنی انفرادیت کا احساس تھا۔ جس کا اظہار انہوں نے اپنے مختلف اشعار میں کیا ہے۔کچھ غم زیست کا شکار ہوئے
کچھ مسیحا نے مار ڈالے ہیں
رہ گزار حیا ت میں ہم نے
خود نئے راستے نکالے ہیں
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
ابھی مشکل سے سمجھے گا زمانہ
نیا نغمہ نئی آواز ہوں میں
مجھی پہ ختم ہیں سارے ترانے
شکست ساز کی آواز ہوں میں
درد و کرب کے اس پیکر کا 30 اکتوبر 1962ء کو پاکستان کے حیدر آباد میں خاتمہ ہو گیا۔
کوئے قاتل میں ہمی بڑھ کے صدا دیتے ہیں
زندگی، آج ترا قرض چکا دیتے ہیں
Comment