Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

افتخار عارف

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • افتخار عارف


    آج نامور شاعر افتخار عارف کا یوم ولادت ہے ۔افتخار عارف 21 مارچ، 1943ء کو لکھنو میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی منتقل ہوگیا ۔ لکھنو یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا۔ اپنی علمی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بحیثیت نیوز کاسٹر کیا۔ پھر پی ٹی وی سے منسلک ہوگئے۔ اس دور میں ان کا پروگرام کسوٹی بہت زیادہ مقبول ہوا۔ بی سی سی آئی بینک کے تعاون سے چلنے والے ادارے ’’اردو مرکز‘‘ کو جوائن کرنے کے بعد آپ انگلینڈ تشریف لے گئے۔ انگلینڈ سے واپس آنے کے بعد مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین بنے۔اس کے بعد اکادمی ادبیات کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔ جبکہ نومبر 2008 سے مقتدرہ قومی زبان کے چیرمین کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
    افتخار عارف کا اپنی نسل کے شعراء میں سنجیدہ ترین شاعر ہیں۔ وہ اپنے مواد اور فن دونوں میں ایک ایسی پختگی کا اظہار کرتے ہیں جو دوسروں میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ وہ عام شعراءکی طرح تجربہ کے کسی جزوی اظہار پر قناعت نہیں کرتے بلکہ اپنا پورا تجربہ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھ اسے سمیٹتے ہیں۔اپنے مواد پر ان کی گرفت حیرت انگیز حد تک مضبوط ہے اور یہ سب باتیں مل کر ظاہر کرتی ہیں کہ افتخار عارف کی شاعری ایک ایسے شخص کی شاعری ہے جو سوچنا ، محسوس کرنا اور بولنا جانتا ہے جب کہ اس کے ہمعصروں میں بیشتر کا المیہ یہ ہے کہ یا تو وہ سوچ نہیں سکتے یا وہ محسوس نہیں کر سکتے اورسوچ اور احساس سے کام لے سکتے ہیں تو بولنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ ان کی ان خصوصیات کی بناء پر جب میں ان کے کلام کو ہم دیکھتے ہیں تو یہ احساس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ افتخار عارف کی آواز جدید اردو شاعری کی ایک بہت زندہ اور توانا آواز ہے۔ ایک ایسی آواز جو ہمارے دل و دماغ دونوں کو بیک وقت اپنی طرف کھینچتی ہے اور ہمیں ایک ایسی آسودگی بخشتی ہے جو عارف کے سوا شاید ہی کسی ایک آدھ شاعر میں مل سکے۔

    نمونہ کلام

    وحشت کا اثر خواب کی تعبیر میں ہوتا
    اک جاگنے والا مری تقدیر میں ہوتا

    اک عالم خوبی ہے میّسر، مگر اے کاش
    اس گُل کاعلاقہ، مری جاگیر میں ہوتا

    اُس آہوئے رم خوردہ وخوش چشْم کی خاطر
    اک حلقۂ خوشبو مری زنجیر میں ہوتا

    مہتاب میں اک چاند سی صورت نظرآتی
    نسبت کا شرف سِلسِلۂ میر میں ہوتا

    مرتا بھی جو اُس پر تو اُسے مار کے رکھتا
    غالب کا چلن عشق کی تقصیر میں ہوتا

    اک قامتِ زیبا کا یہ دعویٰ ہے، کہ وہ ہے
    ہوتا تو مرے حرفِ گرہ گیر میں ہوتا

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔


    بکھرجائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہوگا
    مِرے معبود! آخر کب تماشا ختم ہوگا

    چراغِ حُجرۂ درویش کی بُجھتی ہوئی لو
    ہوا سے کہہ گئی ہے اب تماشا ختم ہوگا

    کہانی آپ اُلجھی ہے، کہ اُلجھائی گئی ہے
    یہ عقدہ تب کُھلے گا جب تماشا ختم ہوگا

    یہ سب کٹھ پُتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
    سحرسے پہلے پہلے، سب تماشا ختم ہوگا

    تماشا کرنے والوں کو خبردی جا چُکی ہے
    کہ پردہ کب گرے گا، کب تماشا ختم ہوگا

    دلِ ما مطمئن، ایسا بھی کیا مایوس رہنا
    جو خلق اُٹھی تو سب کرتب تماشا ختم ہوگا

    افتخارعارف

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔


    فضا میں رنگ نہ ہوں آنکھ میں نمی بھی نہ ہو
    وہ حرف کیا کہ رقم ہو تو روشنی بھی نہ ہو

    وہ کیا بہار کہ پیوند خاک ہو کہ رہے
    کشاکش روش و رنگ سے بری بھی نہ ہو

    کہاں ہے اور خزانہ، بجز خزانۂ خواب
    لٹانے والا لٹاتا رہے، کمی بھی نہ ہو

    یہی ہوا، یہی بے مہر و بے لحاظ ہوا
    یہی نہ ہو تو چراغوں میں روشنی بھی نہ ہو

    ملے تو مِل لیے، بچھڑے تو یاد بھی نہ رہے
    تعلقات میں ایسی روا روی بھی نہ ہو

    ** افتخار عارف **
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    "ابھی کچھ دن لگیں گے"

    ابھی کچھ دن لگیں گے

    دل ایسے شہر کے پامال ہو جانے کا منظر بھولنے میں

    ابھی کچھ دن لگیں گے

    جہان رنگ کے سارے خس و خاشاک

    سب سرو صنوبر بھولنے میں

    ابھی کچھ دن لگیں گے

    تھکے ہارے ہوئے خوابوں کے ساحل پر

    کہیں امید کا چھوٹا سا اک گھر بنتے بنتے رہ گیا ہے

    وہ اک گھر بھولنے میں

    ابھی کچھ دن لگیں گے

    مگر اب دن ہی کتنے رہ گیۓ ہیں

    کسی دن دل کی لوح منتظر پر اچانک

    رات اترے گی

    میری بے نو آنکھوں کے خزانے میں چھپے

    ھر خواب کی تکمیل کر دے گی

    مجھے بھی خواب میں تبدیل کر دے گی

    اک ایسا خواب جس کا دیکھنا ممکن نہیں تھا

    اک ایسا خواب جس کے دامن صد چاک میں

    کوئی مبارک کوئی روشن دن نہیں تھا

    ابھی کچھ دن لگیں گے

    افتخار عارف





    "Can you imagine what I would do if I could do all I can? "

  • #2
    Re: افتخار عارف

    buhat shukria hamray sath share karnay kay leye :rose
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

    Comment


    • #3
      Re: افتخار عارف

      Very Nice Info ..........
      Bohat Shukriya ...... :)
      :sad Ak Jhoota Lafz Mohabbat Ka ..

      Comment


      • #4
        Re: افتخار عارف

        Bohat khoobsurat information, thanks for sharing, khush rahyeh
        sigpic

        Comment

        Working...
        X