Asslam-o-alaikum
Is bar "Jawaid akhtar
" ki Poetry share karni thi
Thanx to everyone jinho ne kiya
apni pasand ki sharing ko vote cast kijiye
Important note:-
khud ko vote nai de saktay..
last date 25th March 2014 hai..
Winner decide karne k liye ap k votes 50% tak ki ehmiyat rakhte hain baqi 50% @Aanchal decide Kari gi
pErIsH_BoY
mY eNteRy
بھوک
آنکھ کھل گئی میری
ہوگیا میں پھر زندہ
پیٹ کے اندھیروں سے
ذہن کے دھندلکوں تک
ایک سانپ کے جیسا
رینگتا خیال آیا
آج تیسرا دن ہے۔۔۔۔ آج تیسرا دن ہے
اک عجیب خاموشی
منجمد ہے کمرے میں
ایک فرش اور اک چھت
اور چار دیواریں
مجھ سے بے تعلّق سب
سب مرے تماشائی
سامنے کی کھڑکی سے
تیز دھوپ کی کرنیں
آرہی ہیں بستر پر
چُبھ رہی ہیں چہرے پر
اس قدر نکیلی ہیں
جیسے رشتے داروں کے
طنز میری غربت پر
آنکھ کھل گئی میری
آج کھوکھلا ہوں میں
صرف خول باقی ہے
آج میرے بستر میں
لیٹا ہے مرا ڈھانچہ
اپنی مُردہ آنکھوں سے
دیکھتا ہے کمرے کو
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
تنگ سی سڑک پر ہیں
دونوں سمت دُکانیں
خالی خالی آنکھوں سے
ہر دُکان کا تحتہ
صرف دیکھ سکتا ہوں
اب پڑھا نہیں جاتا
لوگ آتے جاتے ہیں
پاس سے گزرتے ہیں
پھر بھی کتنے دھندلے ہیں
سب ہیں جیسے بے چہرہ
شور ان دُکانوں کا
راہ چلتی اک گالی
ریڈیو کی آوازیں
دُور کی صدائیں ہیں
آرہی ہیں میلوں سے
جو بھی سن رہا ہوں میں
جو بھی دیکھتا ہوں میں
خواب جیسا لگتا ہے
ہے بھی اور نہیں بھی ہے
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
سامنے کے نُکّڑ پر
نل دکھائی دیتا ہے
سخت کیوں ہے یہ پانی
کیوں گلے میں پھنستا ہے
میرے پیٹ میں جیسے
گھونسہ ایک لگتا ہے
آرہا ہے چکّر سا
جسم پر پسینہ ہے
اب سکت نہیں باقی
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
ہر طرف اندھیرا ہے
گھاٹ پر اکیلا ہوں
سیڑھیاں ہیں پتّھر کی
سیڑھیوں پہ لیٹا ہوں
اب میں اُٹھ نہیں سکتا
آسماں کو تکتا ہوں
آسماں کی تھالی میں
چاند ایک روٹی ہے
جھک رہی ہیں اب پلکیں
ڈوبتا ہے یہ منظر
ہے زمین گردش میں
میرے گھر میں چُولھا تھا
روز کھانا پَکتا تھا
روٹیاں سُنہری ہیں
گرم گرم یہ کھانا
کُھل نہیں رہی آنکھیں
کیا میں مرنے والا ہوں
ماں عجیب تھی میری
روزاپنے ہاتھوں سے
مجھ کو وہ کھلاتی تھی
کون سرد ہاتھوں سے
چھو رہا ہے چہرے کو
اک نوالا ہاتھی کا
اک نوالا گھوڑے کا
اک نوالا بھالو کا
موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی ہے غنیمت ہے
آج تیسرا دن تھا۔ ۔۔۔آج تیسرا دن تھا
جاوید اختر
Zeest
غزل
(جاوید اختر)
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے
ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے
ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آگئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہوگئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے
آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی، کیا کہیں ہم سے کیا بدحواسی ہوئی
کہنے والی جو تھی بات ہو نہ سکی، بات جو تھی چھپانی، بتانے لگے
عشق بے گھر کرے، عشق بے در کرے، عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانا نہیں
ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی، آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے
MR.Fkas
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں
نرم آواز، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اُتر جاتے ہیں
jia
intelligent086
شاعری سچ بولتی ہے
لاکھ پردوں میں رہوں، بھید میرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زبان ڈولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرا اصرار کے چاہت میری بیتاب نہ ہو
واقف اس غم سے میرا حلقہ احباب نہ ہو
تو مجھے ضبط کے صحرائوں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
یہ بھی کیا بات کے چھپ چھپ کے تجھے پیار کروں
گر کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو میں انکار کروں
جب کسی بات کو دنیا کی نظر ٹٹولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے اس فکر میں کاٹی کئی راتیں کئی دن
میرے شعروں میں تیرا نام نہ آئے لیکن
جب تیری سانس میری سانس میں رس گھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرے جلووں کا ہے پرت میری اک اک غزل
تو میرے جسم کا سایا ہے تو کترا کے نہ چل
پردہ داری تو خود اپنا ہی بھرم کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
maya
maiN bhool jaooN tumhaiN ab yehi munasib hai
magar bhulana bhi chahooN to kis tarah bhoolooN
k tum to phir bhi haqeeqat ho koi khaab nahiN
yahaN to dil ka yeh aalam hai kia kahooN kam bakht
bhula saka na silsila kabhi jo tha hi nahiN
woh ik khayal jo aawaaz tak gaya hi nahiN
woh aik bat jo maiN keh nahiN saka tum say
woh aik rabt jo hum maiN kabhi raha hi nahiN
mujhe hai yad woh sab jo kabhi hua hi nahiN
agar yeh haal hai dil ka to koi samjhaye
tumhaiN bhulana bhi chahooN to kis tarah bhooloN
k tum to phir bhi haqeeqat ho koi khaab nahiN!
SheeN
kin lafzoN maiN itni karwi, itni kaseeli bat likhoN
sh'air ki maiN tehzeeb nibhaoN ya apne haalat likhooN
gham nahiN likhooN kia maiN gham ko? jashn likhooN kia maatam ko?
jo daikhay haiN maiN ne janazay kia unko baarat likhooN?
kaisay likhooN chand k qissay, kaisay likhooN phool ki bat
rait uraye garm hawa to kaisay maiN barsaat likhooN?
apni apni taareeki ko log ujala kehtay haiN
tareeki k nam likhooN to qaumaiN, firqay, zat likhooN
janay kaisa dor hai jismaiN yeh jurrat bhi mushkil hai
din ho gar to usko likhooN, rat agar ho rat likhooN
Is bar "Jawaid akhtar
" ki Poetry share karni thi
Thanx to everyone jinho ne kiya
apni pasand ki sharing ko vote cast kijiye
Important note:-
khud ko vote nai de saktay..
last date 25th March 2014 hai..
Winner decide karne k liye ap k votes 50% tak ki ehmiyat rakhte hain baqi 50% @Aanchal decide Kari gi
pErIsH_BoY
mY eNteRy
بھوک
آنکھ کھل گئی میری
ہوگیا میں پھر زندہ
پیٹ کے اندھیروں سے
ذہن کے دھندلکوں تک
ایک سانپ کے جیسا
رینگتا خیال آیا
آج تیسرا دن ہے۔۔۔۔ آج تیسرا دن ہے
اک عجیب خاموشی
منجمد ہے کمرے میں
ایک فرش اور اک چھت
اور چار دیواریں
مجھ سے بے تعلّق سب
سب مرے تماشائی
سامنے کی کھڑکی سے
تیز دھوپ کی کرنیں
آرہی ہیں بستر پر
چُبھ رہی ہیں چہرے پر
اس قدر نکیلی ہیں
جیسے رشتے داروں کے
طنز میری غربت پر
آنکھ کھل گئی میری
آج کھوکھلا ہوں میں
صرف خول باقی ہے
آج میرے بستر میں
لیٹا ہے مرا ڈھانچہ
اپنی مُردہ آنکھوں سے
دیکھتا ہے کمرے کو
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
تنگ سی سڑک پر ہیں
دونوں سمت دُکانیں
خالی خالی آنکھوں سے
ہر دُکان کا تحتہ
صرف دیکھ سکتا ہوں
اب پڑھا نہیں جاتا
لوگ آتے جاتے ہیں
پاس سے گزرتے ہیں
پھر بھی کتنے دھندلے ہیں
سب ہیں جیسے بے چہرہ
شور ان دُکانوں کا
راہ چلتی اک گالی
ریڈیو کی آوازیں
دُور کی صدائیں ہیں
آرہی ہیں میلوں سے
جو بھی سن رہا ہوں میں
جو بھی دیکھتا ہوں میں
خواب جیسا لگتا ہے
ہے بھی اور نہیں بھی ہے
دوپہر کی گرمی میں
بے ارادہ قدموں سے
اک سڑک پہ چلتا ہوں
سامنے کے نُکّڑ پر
نل دکھائی دیتا ہے
سخت کیوں ہے یہ پانی
کیوں گلے میں پھنستا ہے
میرے پیٹ میں جیسے
گھونسہ ایک لگتا ہے
آرہا ہے چکّر سا
جسم پر پسینہ ہے
اب سکت نہیں باقی
آج تیسرا دن ہے
آج تیسرا دن ہے
ہر طرف اندھیرا ہے
گھاٹ پر اکیلا ہوں
سیڑھیاں ہیں پتّھر کی
سیڑھیوں پہ لیٹا ہوں
اب میں اُٹھ نہیں سکتا
آسماں کو تکتا ہوں
آسماں کی تھالی میں
چاند ایک روٹی ہے
جھک رہی ہیں اب پلکیں
ڈوبتا ہے یہ منظر
ہے زمین گردش میں
میرے گھر میں چُولھا تھا
روز کھانا پَکتا تھا
روٹیاں سُنہری ہیں
گرم گرم یہ کھانا
کُھل نہیں رہی آنکھیں
کیا میں مرنے والا ہوں
ماں عجیب تھی میری
روزاپنے ہاتھوں سے
مجھ کو وہ کھلاتی تھی
کون سرد ہاتھوں سے
چھو رہا ہے چہرے کو
اک نوالا ہاتھی کا
اک نوالا گھوڑے کا
اک نوالا بھالو کا
موت ہے کہ بے ہوشی
جو بھی ہے غنیمت ہے
آج تیسرا دن تھا۔ ۔۔۔آج تیسرا دن تھا
جاوید اختر
Zeest
غزل
(جاوید اختر)
آپ سے مل کے ہم کچھ بدل سے گئے، شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے
پہلے مشہور تھی اپنی سنجیدگی، اب تو جب دیکھئے مسکرانے لگے
ہم کو لوگوں سے ملنے کا کب شوق تھا، محفل آرائی کا کب ہمیں ذوق تھا
آپ کے واسطے ہم نے یہ بھی کیا، ملنے جلنے لگے، آنے جانے لگے
ہم نے جب آپ کی دیکھیں دلچسپیاں، آگئیں چند ہم میں بھی تبدیلیاں
اک مصور سے بھی ہوگئی دوستی، اور غزلیں بھی سننے سنانے لگے
آپ کے بارے میں پوچھ بیٹھا کوئی، کیا کہیں ہم سے کیا بدحواسی ہوئی
کہنے والی جو تھی بات ہو نہ سکی، بات جو تھی چھپانی، بتانے لگے
عشق بے گھر کرے، عشق بے در کرے، عشق کا سچ ہے کوئی ٹھکانا نہیں
ہم جو کل تک ٹھکانے کے تھے آدمی، آپ سے مل کے کیسے ٹھکانے لگے
MR.Fkas
درد کے پھول بھی کھلتے ہیں بکھر جاتے ہیں
زخم کیسے بھی ہوں کچھ روز میں بھر جاتے ہیں
چھت کی کڑیوں سے اُترتے ہیں مرے خواب مگر
میری دیواروں سے ٹکراکے بکھر جاتے ہیں
اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی
سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں
راسته روکے کھڑی ہے یہی الجھن کب سے
کوئی پوچھے تو کہیں کیا کہ کدھر جاتے ہیں
نرم آواز، بھلی باتیں، مہذب لہجے
پہلی بارش میں ہی یہ رنگ اُتر جاتے ہیں
jia
intelligent086
شاعری سچ بولتی ہے
لاکھ پردوں میں رہوں، بھید میرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زبان ڈولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرا اصرار کے چاہت میری بیتاب نہ ہو
واقف اس غم سے میرا حلقہ احباب نہ ہو
تو مجھے ضبط کے صحرائوں میں کیوں رولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
یہ بھی کیا بات کے چھپ چھپ کے تجھے پیار کروں
گر کوئی پوچھ ہی بیٹھے تو میں انکار کروں
جب کسی بات کو دنیا کی نظر ٹٹولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے اس فکر میں کاٹی کئی راتیں کئی دن
میرے شعروں میں تیرا نام نہ آئے لیکن
جب تیری سانس میری سانس میں رس گھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
تیرے جلووں کا ہے پرت میری اک اک غزل
تو میرے جسم کا سایا ہے تو کترا کے نہ چل
پردہ داری تو خود اپنا ہی بھرم کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
maya
maiN bhool jaooN tumhaiN ab yehi munasib hai
magar bhulana bhi chahooN to kis tarah bhoolooN
k tum to phir bhi haqeeqat ho koi khaab nahiN
yahaN to dil ka yeh aalam hai kia kahooN kam bakht
bhula saka na silsila kabhi jo tha hi nahiN
woh ik khayal jo aawaaz tak gaya hi nahiN
woh aik bat jo maiN keh nahiN saka tum say
woh aik rabt jo hum maiN kabhi raha hi nahiN
mujhe hai yad woh sab jo kabhi hua hi nahiN
agar yeh haal hai dil ka to koi samjhaye
tumhaiN bhulana bhi chahooN to kis tarah bhooloN
k tum to phir bhi haqeeqat ho koi khaab nahiN!
SheeN
kin lafzoN maiN itni karwi, itni kaseeli bat likhoN
sh'air ki maiN tehzeeb nibhaoN ya apne haalat likhooN
gham nahiN likhooN kia maiN gham ko? jashn likhooN kia maatam ko?
jo daikhay haiN maiN ne janazay kia unko baarat likhooN?
kaisay likhooN chand k qissay, kaisay likhooN phool ki bat
rait uraye garm hawa to kaisay maiN barsaat likhooN?
apni apni taareeki ko log ujala kehtay haiN
tareeki k nam likhooN to qaumaiN, firqay, zat likhooN
janay kaisa dor hai jismaiN yeh jurrat bhi mushkil hai
din ho gar to usko likhooN, rat agar ho rat likhooN
Comment