ہم شہروں شہروں گھومے ہیں
ہم بستی بستی ہو آۓ
ہم گلیاں غرفے جھانک چکے
ہم ایک اک موڑ پہ رکتے ہوۓ
اس لڑکی تک تو آ پہنچے
رنگت کی وہ اجلی تھی
اس اجلی رنگت والی کو
ہم تن من اپنا ہار چکے
ہم دل تک اس کے ہو آۓ
اس لڑکی کے من کی
چوکھٹ خالی خالی تھی
اس خالی چوکھٹ کے اندر
ہم صورت اپنی ٹانک آۓ
ہم مورت اپنی ٹانک آۓ
جب صبح کو ہاتھ منہ دھوتے میں
بالوں میں کنگی ہوتے میں
اس لڑکی کو معلوم ہوا
چت چور کہیں سے آیا تھا
چوکھٹ میں مورت ٹانک گیا
پہلے تو حیران آنکھوں سے
تصویر کو تکتے تکتے میں
مسحور ہوئی، مسرور ہوئی
پھر ہاتھ بڑھا کر لڑکی نے
تصویر نکالی چوکھٹ سے
تصویر کے ٹکڑے چار ہوۓ
چت چور تو آخر چور ہی تھا
وہ گوند کہیں سے لے آیا
اور رات کے اک سناٹے میں
اس لڑکی تک وہ جا پہنچا
اور گوند لگا کے ٹکڑوں کو
پھر چوکھٹ میں چپکا آیا
وہ لڑکی الہڑ لڑکی تھی
مورت کی قیمت کیا جانے
صورت کی قیمت کیا جانے
تصویر کو اس نے نوچ لیا
اور ڈالا اس کو چولہے میں
تصویر تو جل کر راکھ ہوئی
چت چور بھی آخر انسان تھا
اور انسان بھی اور شاعر بھی
وہ راکھ اکٹھی کر لایا
اور بھرا اس کو دامن میں
لڑکی کے در پہ جا پہنچا
لڑکی کے دل تک جا پہنچا
سردی کی ٹھنڈی راتوں میں
جب ساری دنیا سوتی ہے
وہ لڑکی باہر باغیچے میں
سوچوں میں ڈوبی بیٹھی تھی
تصویر جلا کے وہ لڑکی
کچھہ حیران تھی، کچھ نادم تھی
پھر اک دن صبح سویرے ہی
شاعر کے در پہ جا پہنچی
اور بولی اپنے شاعر سے
تصویر نہیں تو غم نہ کر
اس چوکھٹ میں تم سج جاؤ
اس دل میں میر آ بیٹھو
اس اصلی صورت کے ہوتے
میں نقلی تصویر نہ لوں گی
ہم بستی بستی ہو آۓ
ہم گلیاں غرفے جھانک چکے
ہم ایک اک موڑ پہ رکتے ہوۓ
اس لڑکی تک تو آ پہنچے
رنگت کی وہ اجلی تھی
اس اجلی رنگت والی کو
ہم تن من اپنا ہار چکے
ہم دل تک اس کے ہو آۓ
اس لڑکی کے من کی
چوکھٹ خالی خالی تھی
اس خالی چوکھٹ کے اندر
ہم صورت اپنی ٹانک آۓ
ہم مورت اپنی ٹانک آۓ
جب صبح کو ہاتھ منہ دھوتے میں
بالوں میں کنگی ہوتے میں
اس لڑکی کو معلوم ہوا
چت چور کہیں سے آیا تھا
چوکھٹ میں مورت ٹانک گیا
پہلے تو حیران آنکھوں سے
تصویر کو تکتے تکتے میں
مسحور ہوئی، مسرور ہوئی
پھر ہاتھ بڑھا کر لڑکی نے
تصویر نکالی چوکھٹ سے
تصویر کے ٹکڑے چار ہوۓ
چت چور تو آخر چور ہی تھا
وہ گوند کہیں سے لے آیا
اور رات کے اک سناٹے میں
اس لڑکی تک وہ جا پہنچا
اور گوند لگا کے ٹکڑوں کو
پھر چوکھٹ میں چپکا آیا
وہ لڑکی الہڑ لڑکی تھی
مورت کی قیمت کیا جانے
صورت کی قیمت کیا جانے
تصویر کو اس نے نوچ لیا
اور ڈالا اس کو چولہے میں
تصویر تو جل کر راکھ ہوئی
چت چور بھی آخر انسان تھا
اور انسان بھی اور شاعر بھی
وہ راکھ اکٹھی کر لایا
اور بھرا اس کو دامن میں
لڑکی کے در پہ جا پہنچا
لڑکی کے دل تک جا پہنچا
سردی کی ٹھنڈی راتوں میں
جب ساری دنیا سوتی ہے
وہ لڑکی باہر باغیچے میں
سوچوں میں ڈوبی بیٹھی تھی
تصویر جلا کے وہ لڑکی
کچھہ حیران تھی، کچھ نادم تھی
پھر اک دن صبح سویرے ہی
شاعر کے در پہ جا پہنچی
اور بولی اپنے شاعر سے
تصویر نہیں تو غم نہ کر
اس چوکھٹ میں تم سج جاؤ
اس دل میں میر آ بیٹھو
اس اصلی صورت کے ہوتے
میں نقلی تصویر نہ لوں گی
Comment