کسی یاد میں گم صم، تھکی ہاری
ستاروں کے نگر سے شام جب بھی لوٹ آتی ہے
مری آنکھوں کے ویراں صحن میں سر کو جھکائے چلنے لگتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
مرے کانوں میں جب بھی وصل کے لمحوں کی
اک آہٹ سی آتی ہے
تو میری، ہجر آلودہ سی پلکوں پر ستارے جاگ اٹھتے ہیں
کسی کی شکل بنتی اور بکھرتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
کبھی جب ان گنت صدیوں سے چلتے قافلوں کا سلسلہ
مجھ تک پہنچتا ہے
توہجرت پاؤں سے سرگوشیاں سی کرنے لگتی ہیں
اداسی بڑھنے لگتی ہے
میں جب بھی ریگزاروں کی کہانی پڑھنے لگتا ہوں
کسی کی یاد میرے گھر کی دیواروں پہ
ننگے پاؤں اکثر چلنے لگتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
اداسی جب بھی بڑھتی ہے
تو مجھ کو دل کے بے مقصد دریچوں، طاقچوں سے جھانکتی ہے
اور مرے ہونٹوں کی خاموشی سے مجھ کو مانگتی ہے
مرے سینے پہ پھر یہ وحشیانہ رقص کرتی ہے
یہ میرے جسم کے کتبے پہ کوئی لفظ لکھتی ہے
اداسی روز بڑھتی ہے ۔۔!!!
Comment