پچھلے سال کی ڈائری کا آخری ورق
کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں
کبھی دل کے صفحے پر
تجھے تصویر کرتے ہیں
کبھی پلکوں کی چھاؤں میں
تجھے زنجیر کرتے ہیں
کبھی خوابیدہ شاموں میں
کبھی بارش کی راتوں میں
کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں
کبھی دل کے صفحے پر
تجھے تصویر کرتے ہیں
کبھی پلکوں کی چھاؤں میں
تجھے زنجیر کرتے ہیں
کبھی خوابیدہ شاموں میں
کبھی بارش کی راتوں میں
کوئی موسم ہو وصل و ہجر کا
ہم یاد رکھتے ہیں
تیری باتوں سے اس دل کو
بہت آباد رکھتے ہیں
نوشی گیلانی
• — — — — — — — — — — — — •
• — — — — — — — — — — — — •
Comment