بس ایک خوابِ بہار
اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک بہار کی شام
نظر بچا کے شب و روز کے تسلسل سے
وہ موسموں کا گزرگاہِ زندگی پہ سفر
ہَوائے یاد کی ویران بستیوں کی طرف
کہ جن کی راہ میں دیوار تھی عجب کوئی
وہ سنگ و خشت کی دیوار
یا ارادے کی
وہ راستے ، جو فقط راستوں کے سائے تھے
وہ واہموں کی حدیں ۔۔۔ مضطرب ارادوں پر
کہیں سرکتی، کسی سمت سرسراتی ہوئی
وہ شاخ شاخ پہ مثلِ خزاں برستی ہوئی
وہ پھول پھول کے دل کو
بہت ڈراتی ہوئی
خزاں سے عہد نہ تھا اور موسمِ گل سے
کبھی ملن نہ ہوا، وعدۂ وفا نہ ہوا
وہ موسموں کی حکایت کتابِ دل میں رہی
فسانہ اہلِ چمن کا کہیں لکھا نہ گیا
کبھی پڑھا نہ گیا اور کبھی سنا نہ گیا
زمیں جو پاؤں کے نیچے ، زمیں کا دھوکا تھی
کبھی ہری نہ ہوئی ۔۔۔ دُوب لہلہائی نہیں
مسافتوں کے سروں پر کھڑے یہ شاہ بلوط
جو اب سیاہ ہوئے انتظارِ ہستی میں
ہَوا کے دوش پر آتا نہیں کوئی پیغام
نگاہِ ہجر میں کھلتا ہے صرف ایک گلاب
بس ایک خواب
فقط ایک خوابِ عشق مآب
مہ و ستارہ ۔۔۔ گل و برگ ۔۔۔ طائر و اشجار
صدائے خواب پہ ‘ لبیک’ کہہ رہے ہیں تمام
اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک
بہار کی شام
ثمینہ راجا
اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک بہار کی شام
نظر بچا کے شب و روز کے تسلسل سے
وہ موسموں کا گزرگاہِ زندگی پہ سفر
ہَوائے یاد کی ویران بستیوں کی طرف
کہ جن کی راہ میں دیوار تھی عجب کوئی
وہ سنگ و خشت کی دیوار
یا ارادے کی
وہ راستے ، جو فقط راستوں کے سائے تھے
وہ واہموں کی حدیں ۔۔۔ مضطرب ارادوں پر
کہیں سرکتی، کسی سمت سرسراتی ہوئی
وہ شاخ شاخ پہ مثلِ خزاں برستی ہوئی
وہ پھول پھول کے دل کو
بہت ڈراتی ہوئی
خزاں سے عہد نہ تھا اور موسمِ گل سے
کبھی ملن نہ ہوا، وعدۂ وفا نہ ہوا
وہ موسموں کی حکایت کتابِ دل میں رہی
فسانہ اہلِ چمن کا کہیں لکھا نہ گیا
کبھی پڑھا نہ گیا اور کبھی سنا نہ گیا
زمیں جو پاؤں کے نیچے ، زمیں کا دھوکا تھی
کبھی ہری نہ ہوئی ۔۔۔ دُوب لہلہائی نہیں
مسافتوں کے سروں پر کھڑے یہ شاہ بلوط
جو اب سیاہ ہوئے انتظارِ ہستی میں
ہَوا کے دوش پر آتا نہیں کوئی پیغام
نگاہِ ہجر میں کھلتا ہے صرف ایک گلاب
بس ایک خواب
فقط ایک خوابِ عشق مآب
مہ و ستارہ ۔۔۔ گل و برگ ۔۔۔ طائر و اشجار
صدائے خواب پہ ‘ لبیک’ کہہ رہے ہیں تمام
اتر کر آئی ہے آنکھوں تلک
بہار کی شام
ثمینہ راجا
Comment