یہ اضطراب کیا ہے،حال کیا ہے مدعا ہے کیا
وہ دیکھتے تو جانتا،وہ پوچھتے تو سوچتا
ہیں یوں تو بے نیازیوں کو تیری لاکھ مشغلے
جو ہو سکے تو اہل درد کو بھی یاد آئے جا
کہاں تک اک جہاں کے وہم نو بہ نو کو روئیے
یہ سچ کے حسن باوفا،بجا کے عشق بے خطا
مجھے بھی یاد ہے وہ شام ہجر کی حکائیتیں
وہ درد سا رکا رکا وہ اشک سا تھما تھما
خیال ربط باہمی مجھے بھی ہے اسے بھی ہے
یہ آرزو الگ الگ، یہ مدعا جدا جدا
ہر انجمن سے وہ نگاہ ناز لے اڑی مھجے
بصد جنون و ہوش عشق رہ گیا دیکھتا
فضائے کائنات آنکھ کھولتی چلی فراق
یہ نغمہ ہائے زندگی سنائے جا سنائے جا