ساحر لدھیانوی کا ابھی کالج میں بی۔ اے کا پہلا ہی سال تھا کہ کالج کے پرنسپل کی لڑکی سے اسے عشق ہوگیا ۔ جس کی پاداش میں ساحر کو کالج سے نکال دیا گیا۔
برسوں بعد جب ساحر ہندوستان کا ایک بڑا شاعر اور فلمی دنیا کا مقبول ترین نغمہ نگار بن گیا تو اسی کالج میں اس کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا
جہاں ساحر نے اپنی مشہور زمانہ نظم ‘‘نذر کالج’’ پڑھی’جس کے مصرعے یوں تھے.....
اے سرزمینِ پاک کے یارانِ نیک نام
باصد خلوص__ شاعرِ آوارہ کا سلام
تیری نوازشوں ___ کو بھلایا نہ جائے گا
ماضی کا نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا
معصومیوں کے جرم میں بدنام ہم ہوئے
تیرے طفیل ____ موردِ الزام بھی ہوئے
اس سرزمیں پہ آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا __ ہمارے نام سے بیزار ہی سہی
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گریاں نہیں*تو یاں سے نکالے ہوئے تو ہیں
برسوں بعد جب ساحر ہندوستان کا ایک بڑا شاعر اور فلمی دنیا کا مقبول ترین نغمہ نگار بن گیا تو اسی کالج میں اس کے اعزاز میں ایک جلسہ ہوا
جہاں ساحر نے اپنی مشہور زمانہ نظم ‘‘نذر کالج’’ پڑھی’جس کے مصرعے یوں تھے.....
اے سرزمینِ پاک کے یارانِ نیک نام
باصد خلوص__ شاعرِ آوارہ کا سلام
تیری نوازشوں ___ کو بھلایا نہ جائے گا
ماضی کا نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا
معصومیوں کے جرم میں بدنام ہم ہوئے
تیرے طفیل ____ موردِ الزام بھی ہوئے
اس سرزمیں پہ آج ہم اک بار ہی سہی
دنیا __ ہمارے نام سے بیزار ہی سہی
لیکن ہم ان فضاؤں کے پالے ہوئے تو ہیں
گریاں نہیں*تو یاں سے نکالے ہوئے تو ہیں
Comment