ہواؤں سے سَدا لڑنے کی عادت
چراغو! چھوڑ دو جلنے کی عادت
ملے گی تم کو منزل سامنے ہی
اگر خاروں پہ ہو چلنے کی عادت
کہاں سُورج کو دیکھے گا زمانہ؟
بدل دے رات جو ڈھلنے کی عادت
اَزل سے تا اَبد کانٹے وہی ہیں
گُلوں میں اِن کو ہے پلنے کی عادت
یہ دل سمجھا تھا وہ پچھتا رہے ہیں
اور اُن کو ہاتھ ہے ملنے کی عادت
چراغو! چھوڑ دو جلنے کی عادت
ملے گی تم کو منزل سامنے ہی
اگر خاروں پہ ہو چلنے کی عادت
کہاں سُورج کو دیکھے گا زمانہ؟
بدل دے رات جو ڈھلنے کی عادت
اَزل سے تا اَبد کانٹے وہی ہیں
گُلوں میں اِن کو ہے پلنے کی عادت
یہ دل سمجھا تھا وہ پچھتا رہے ہیں
اور اُن کو ہاتھ ہے ملنے کی عادت