بے ارادہ میں جدھر جا نکلا
راستہ اس کے ہی گھر کا نکلا
جس سے شکوہ کیا تنہائی کا
وہ بھی میری طرح تنہا نکلا
اک ذراتارنفس کیا ٹوٹا
جسم کا بوجھ بھی ہلکا نکلا
دل کی اب اور وضاحت کیا ہو
ایک کاغذ تھا کہ کورا نکلا
جامہ حرص پہن کر دیکھا
یہ میرے جسم پہ چھوٹا نکلا
بن بلائے وہ میرے گھر آیا
چلو اک خواب تو سچا نکلا
ہر طرف پیاس بچھی تھی اکبر
کس خرابے میں یہ دریا نکلا ۔
راستہ اس کے ہی گھر کا نکلا
جس سے شکوہ کیا تنہائی کا
وہ بھی میری طرح تنہا نکلا
اک ذراتارنفس کیا ٹوٹا
جسم کا بوجھ بھی ہلکا نکلا
دل کی اب اور وضاحت کیا ہو
ایک کاغذ تھا کہ کورا نکلا
جامہ حرص پہن کر دیکھا
یہ میرے جسم پہ چھوٹا نکلا
بن بلائے وہ میرے گھر آیا
چلو اک خواب تو سچا نکلا
ہر طرف پیاس بچھی تھی اکبر
کس خرابے میں یہ دریا نکلا ۔