رات کے دوسرے کنارے پر
جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے
خوف نادیدہ کہ اشارے پر
جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو
مجھ سے کہتی ہے " افتخار عارف ! "
رات کے دوسرے کنارے پر
" ایک رات اور انتظار میں ہے "
کوئی چپکے سے دل میں کہتا ہے
رات پہ بس چلے نہ چلے
خواب تو اپنے اختیار میں ہے
جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے
خوف نادیدہ کہ اشارے پر
جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو
مجھ سے کہتی ہے " افتخار عارف ! "
رات کے دوسرے کنارے پر
" ایک رات اور انتظار میں ہے "
کوئی چپکے سے دل میں کہتا ہے
رات پہ بس چلے نہ چلے
خواب تو اپنے اختیار میں ہے