شامِ غریباں
غنیم کی سرحدوں کے اندر
زمینِ نامہرباں پہ جنگل کے پاس ہی
شام پڑ چکی ہے
ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے
اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو
جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں
رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے
اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک
جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر
ردائے عفت اوڑھانے والے
بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں
بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ
ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا
مگر وفا کی سبیل بن کر
فضا سے اب تک چھلک رہا ہے
برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں
کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں
بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے
والے پھولوں کو چومتی ہیں
چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں
بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ
حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے
چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں
کٹے ہوئے سر
شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں
کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جارہی ہے
غنیم کی سرحدوں کے اندر
زمینِ نامہرباں پہ جنگل کے پاس ہی
شام پڑ چکی ہے
ہوا میں کچے گلاب جلنے کی کیفیت ہے
اور ان شگوفوں کی سبز خوشبو
جو اپنی نوخیزیوں کی پہلی رتوں میں
رعنائیِ صلیبِ خزاں ہوئے
اور بہار کی جاگتی علامت ہوئے ابد تک
جلے ہوئے راکھ خیموں سے کچھ کھلے ہوئے سر
ردائے عفت اوڑھانے والے
بریدہ بازو کو ڈھونڈتے ہیں
بریدہ بازو کہ جن کا مشکیزہ
ننھے حلقوم تک اگرچہ پہنچ نہ پایا
مگر وفا کی سبیل بن کر
فضا سے اب تک چھلک رہا ہے
برہنہ سر بیبیاں ہواؤں میں سوکھے پتوں
کی سرسراہٹ پہ چونک اٹھتی ہیں
بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے
والے پھولوں کو چومتی ہیں
چھپانے لگتی ہیں اپنے دل میں
بدلتے، سفاک موسموں کی ادا شناسی نے چشمِ
حیرت کو سہمناکی کا مستقل رنگ دے دیا ہے
چمکتے نیزوں پہ سارے پیاروں کے سر سجے ہیں
کٹے ہوئے سر
شکستہ خوابوں سے کیسا پیمان لے رہے ہیں
کہ خالی آنکھوں میں روشنی آتی جارہی ہے