Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

وہی ایک منظر خواب ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • وہی ایک منظر خواب ہے

    وہی شہر ہے
    وہی راستے
    وہی راستوں کا ہے پیچ و خم
    وہی دشت ہے
    وہی دشت شام فراق ہے
    وہی فرش خاک و سراب ہے مرے پاؤں میں
    وہی دھوپ ہے، وہی آسمان کا روپ ہے
    وہی عرصۂ غم رائگاں
    کوئی سائباں ہے ، نہ خیمۂ گل مہرباں
    وہی سنگلاخ زمین کشت گیاہ و گل کی لطافتوں سے ہے بے خبر
    وہی قحط گل کے دیار میں تر و تازہ شاخ ببول ہے
    کہ ہزار زرد رُتوں میں لپٹی ہوئی ہوائے سموم ہے
    وہی شہر کم نظراں کا ہے
    وہی درد ہم سفراں کا ہے
    وہی قریہ ستم آشنا سے محبتوں کا خروج ہے
    وہی چاہتوں کا زوال ہے وہی نفرتوں کا عروج ہے
    وہی لمحہ لمحہ اداس شام، ملول صبح کے سلسلے
    وہی گرد کوئے ملال ہے، وہی وصل و ہجر کے فاصلے
    وہی رتجگوں کی مسافتوں کا عذاب ہے
    وہی بام و در پہ چراغ ہجر جلا ہوا
    وہی طاق مطلع فجر میں
    رخ مہر اپنی تمام زرد شعاعوں میں ہے ڈھلا ہوا
    وہی منظروں میں سراب وصل کی حدتیں ہیں
    دیار دل میں ترے خیال کی وحشتیں ہیں
    طلسم زار فراق میں تری آہٹوں کا گمان ہے
    کہ سماعتوں کے نشیب میں وہی واہموں کا نزول ہے
    وہی تیری دید کے آئنے پہ شکستہ لمحوں کی دھول ہے
    وہی مرحلے ہیں سکون جاں کے زوال میں
    وہی آتش دل بے قرار دہک رہی ہے خیال میں
    وہی میں ہوں
    اور مرے کاسۂ دل بے ہنر میں نشاط کا کوئی زر نہیں
    وہی میں ہوں اور مرے چاروں اور سراب ہے
    وہی ایک منظر خواب ہے


Working...
X