دوسری جُدائی
تری خوشبو
ہوا کے سبز دامن میں بسی
تو سوچ نے آنکھوں میں خواہش کے دریچے کھول کر دل سے کہا
"خدا شاہد
کہ ہم نے آج تک بچھڑے ہوؤں کو پھر کبھی ملتے نہیں دیکھا
مگر حیرت سماعت پر کہ یہ آہٹ اُسی کی ہے
جسے تُم نے گنوایا تھا
جُدائی کی ہواجس کے مہکتے مہکتے جسم کی خوشبو سے خالی تھی
جسے کھونے کا لمحہ ہر نئے موسم کا حاصل تھا
ستارے جس کی صورت دیکھنے ہر شب نکلتے تھے
نظارے ہاتھ ملتے تھے "
یکایک شہر کی گلیوں میں اُس کے نام کی خوشبو اُڑی میں نے
رفاقت کے پُرانے نرم لہجے میں اُسے آواز دی
اُس نے مجھے دیکھا
مگر اُس کی نگاہوں میں فقط حیرت ہویدا تھی
کہ جیسے پوچھتا ہو اس تخاطب کا سبب کیا ہے
وہی چہرہ ،وہی آنکھیں، وہی خوش وضع پیکرتھا
کہ جیسے موسموں کا گُھن اُسے چھونے سے قاصر ہو
میں بچے کی طرح ششدر کھڑا تھا
اُس نے بالوں کو جھٹک کر ڈوبتے سورج کو گھورا
راستے کو آنکھ میں تولا،مجھے دیکھا
"سفر لمبا ہے" وہ بولا
میری منزل تمھاری رہگزر سے سینکڑوں فرسنگ آگے ہے
خدا حافظ
تری خوشبو
ہوا کے سبز دامن میں بسی
تو سوچ نے آنکھوں میں خواہش کے دریچے کھول کر دل سے کہا
"خدا شاہد
کہ ہم نے آج تک بچھڑے ہوؤں کو پھر کبھی ملتے نہیں دیکھا
مگر حیرت سماعت پر کہ یہ آہٹ اُسی کی ہے
جسے تُم نے گنوایا تھا
جُدائی کی ہواجس کے مہکتے مہکتے جسم کی خوشبو سے خالی تھی
جسے کھونے کا لمحہ ہر نئے موسم کا حاصل تھا
ستارے جس کی صورت دیکھنے ہر شب نکلتے تھے
نظارے ہاتھ ملتے تھے "
یکایک شہر کی گلیوں میں اُس کے نام کی خوشبو اُڑی میں نے
رفاقت کے پُرانے نرم لہجے میں اُسے آواز دی
اُس نے مجھے دیکھا
مگر اُس کی نگاہوں میں فقط حیرت ہویدا تھی
کہ جیسے پوچھتا ہو اس تخاطب کا سبب کیا ہے
وہی چہرہ ،وہی آنکھیں، وہی خوش وضع پیکرتھا
کہ جیسے موسموں کا گُھن اُسے چھونے سے قاصر ہو
میں بچے کی طرح ششدر کھڑا تھا
اُس نے بالوں کو جھٹک کر ڈوبتے سورج کو گھورا
راستے کو آنکھ میں تولا،مجھے دیکھا
"سفر لمبا ہے" وہ بولا
میری منزل تمھاری رہگزر سے سینکڑوں فرسنگ آگے ہے
خدا حافظ