دسمبر تیری عنایت
وسعتوں کی سرحد سے نکل کر میں نے
دھندلکوں میں بسے دسمبر کو پرکھا تو
شبِ وصل کی وہ سحر میرے صحن میں ٹھہر گئی ۔ ۔ ۔
قلم کے گوشے اُس قُہر سے بھیگنے لگے جو دسمبر کی
آخری شب ہم پہ برسا تھا ۔ ۔ ۔
تیرے حرفوں کو تراشنے میں جو اذیت آج جھیلی ہے
میرے کفوں پر نقش ہو چلی ہے ۔ ۔ ۔
اُسے بچھڑے ہوے ایک عرصہ بیت چکا ہے
میں اُنہی لمحوں میں مقید ، لفظوں کو ترتیب دے کر
زندگی کے کئی پہلُو گُزار چُکا ہوں ۔ ۔ ۔
لیکن !!!
یہ دسمبر جب بھی آتا ہے
اُسکی یادوں کی دھند میں
یکبارگی سے گُھلنے لگتا ہوں ۔ ۔ ۔
میں جو وحشتوں میں گِرا
اُسکے نقشِ پا ا ٹھانے نکلا تو
دسمبر سے دسمبر تک کا سفر میرے کشکول کا
حصہ ٹھہرا ۔ ۔ ۔
وسعتوں کی سرحد سے نکل کر میں نے
دھندلکوں میں بسے دسمبر کو پرکھا تو
شبِ وصل کی وہ سحر میرے صحن میں ٹھہر گئی ۔ ۔ ۔
قلم کے گوشے اُس قُہر سے بھیگنے لگے جو دسمبر کی
آخری شب ہم پہ برسا تھا ۔ ۔ ۔
تیرے حرفوں کو تراشنے میں جو اذیت آج جھیلی ہے
میرے کفوں پر نقش ہو چلی ہے ۔ ۔ ۔
اُسے بچھڑے ہوے ایک عرصہ بیت چکا ہے
میں اُنہی لمحوں میں مقید ، لفظوں کو ترتیب دے کر
زندگی کے کئی پہلُو گُزار چُکا ہوں ۔ ۔ ۔
لیکن !!!
یہ دسمبر جب بھی آتا ہے
اُسکی یادوں کی دھند میں
یکبارگی سے گُھلنے لگتا ہوں ۔ ۔ ۔
میں جو وحشتوں میں گِرا
اُسکے نقشِ پا ا ٹھانے نکلا تو
دسمبر سے دسمبر تک کا سفر میرے کشکول کا
حصہ ٹھہرا ۔ ۔ ۔
Comment