٭٭٭اقبال کی ابتدائی عشقیہ شاعری٭٭٭
جان دے کر تمہیں جینے کی دعا دیتے ہیں
پھر بھی کہتے ہو کہ عاشق ہمیں کیا دیتے ہیں
بدگمانی کی بھی کچھ حد ہے کہ ہم قاصد سے
قسمیں سو لیتے ہیں جب ایک پتہ دیتے ہیں
موت بازار میں بکتی ہے تو لا دو مجھ کو
ہم نشیں کس لیے جینے کی دعا دیتے ہیں
ان کو بیتاب کیا غیر کا گھر پھونک دیا
ہم دعائیں تجھے اے آہ رسا دیتے ہیں
گرم ہم پر کبھی ہوتا ہے جو وہ بُت اقبال
حضرت داغ کے اشعار سُنا دیتے ہیں۔۔۔۔۔!!
علامہ صاحب کی یہ غزل کسی مجموعہ کلام میں موجود نہیں لیکن ۱۸۹۴ کے ایک شاعری کے مشہور رسالے میں شائع ہوئی تھی ۔اس وقت آپ فرسٹ ائیر کے طالب علم تھے اور داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپکو اس غزل میں داغ کا رنگ واضح نظر آئے گا۔ اور غزل کے مقطع میں بھی علامہ صاحب نے داغ کا ذکر کیا ہے۔ اس غزل کو ملکہ پکھراج نے نہایت خوبصورت انداز میں گایا بھی ہےجسکی ریکارڈنگ پی ٹی وی پر کبھی کبھی چلا کرتی تھی۔
امید ہے آپ اس انداز شاعری کا بھی لطف اٹھائیں گے۔۔۔۔۔۔۔
Comment