گزرتا ہوا سال بھی آخری ہچکیاں لے رہا ہے
میرے پیش و پَس
خوف، دہشت، اَجل، آگ، بارود کی مَوج
آبادیاں نوچ کر اپنے جبڑوں میں جکڑی ہوئی زندگی کو
درندوں کی صُورت
نِگلنے کی مشقوں میں مصروف تر ہے
ہر اک راستہ، موت کی رہ گزر ہے
گزرتا ہوا سال جیسے بھی گزرا
مگر سال کے آخری دِن
نہایت کٹھن ہیں
ہر اک سَمت لاشوں کے اَنبار
زخمی جنازوں کی لمبی قطاریں
کہاں تک کوئی دیکھ پائے؟
ہواؤں میں بارُود کی باس
خود اَمن کی نوحہ خواں ہے
کوئی چارہ گر، عصرِ حاضر کا کوئی مسیحا کہاں ہے؟
محسن نقوی - (۱۹۹۵ء کی آخری نظم
Comment