پھول چڑھتے ہیں جب مزاروں پر
میں نے دیکھا ہے شب سمندر کو
ناچتے چاند کے اشاروں پر
دیکھ کر ڈوبتا ہوا مجھ کو
لوگ ہنستے رہے کناروں پر
کتنے بچے برہنہ پھرتے ہیں
روز چادر چڑھے مزاروں پر
اُس کے مفلوج ہو گئے پاؤں
جو بھی چلتا رہا سہاروں پر
تنگ ہونے لگی صفی دنیا
گھر بسائیں گے اَب ستاروں پر
٭٭٭
Comment