میرے چارہ گر، میرے چارہ گر
میرے درد کی تجھے کیا خبر
تو میرے سفر کا شریک ہے ، نہیں ہمسفر
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے ، اسے کاٹتے میرا سارا وقت نکل گیا
نہیں جس پہ کوئی نشان پا
میرے سامنے ہے وو راہ گزر
میرے چارہ گر، میرے چارہ گر
میرے درد کی تجھے کیا خبر
تو میرے سفر کا شریک ہے ، نہیں ہمسفر
یہ جو ریگ دشت فراق ہے
میرے راستوں میں بچھی ہوئی
کسی موڑ پہ رکے کہیں
یہ جو رات ہے میرے چار سو
مگر اس کی کوئی سحر نہیں
نہ چھاؤں ہے ، نہ ثمر کوئی
میں نے چھان دیکھا شجر شجر
میرے چارہ گر، میرے چارہ گر
میرے درد کی تجھے کیا خبر
تو میرے سفر کا شریک ہے ، نہیں ہمسفر
Comment