اُس کی کالی آنکھوں میں ہیں، یہ انتر منتر سب کے سب
چاقو واقو، چُھریاں وُریاں، خنجر ونجر سب کے سب
جس دن سے تُم رُوٹھے مُجھ سے، یہ بھی رُوٹھے رُوٹھے ہیں
چادر وادر، تکیہ شکیہ، بستر وستر سب کے سب
مُجھ سے بچھڑ کے وہ بھی کہاں اب یارو پہلے جیسی ہے
پھیکے پڑ گئے کپڑے وپڑے، زیور شیور سب کے سب
آخر میں کس دن ڈوبوں گا، فکریں کرتے رہتے ہیں
دریا وریا، کشتی وشتی، لنگر ونگر سب کے سب
دُکھ کے چمن کے واسی ہیں یہ، درد شہر کے بانی سب
محسن وحسن، غالب شالب، ساغر واغر سب کے سب
Comment