اک فلسفی ووست کے لیے
یہ فلسفی
کبھی گمان ہے ذروں پہ کائناتوں کا
کبھی خیال بھٹکنے لگا خلاوں میں
کبھی یہ سوز کہ دھوکا ہے آفرینش دہر
کبھی یہ ساز کہ کچھ راز ہے ہواوئں میں
کبھی بیان کی سب قوتیں رہیں مرکوز
خیال و خواب کے ڈھالے ہوئے خدائوں میں
کبھی یہ درد کہ دشوار ہے حصول سکون
رقابتیں ہیں عناصر کے دیوتائوں میں
کبھی یقین سے تلقین کوشش پہیم
کبھی شکوک کی آمیزش دعاوں میں
کبھی شعور پہ تحت الشعور کا افسوں
ہوس کے رنگ خواتین کی ادائوں میں
کبھی ہے مادہ روحانیت کی لوح مزار
کبھی ہے روح دو عالم کے کببریائوں میں
کبھی یہ حکم کے جمہوریت ہے راہ نجات
کبھی پناہیں شہنشاہوں کی قبائوں میں
کبھی یہ قول، تغیر ہے زندگی کا ثبوت
کبھی یہ وہم حقیقت ہے پارسائوں میں
کبھی سماج کی زنجر پہ کڑی تنقید
کببھی رواج کی گنتی ہے کیمایوں میں
کبھی گناہ پہ الزام، انحطاط حیات
کبھی حیات کی رعنائیاں |خطائوں میں
کبھی غرور امیروں کی ہم نشینی پر
کبھی سرور غریبوں کی التجائوں میں
کبھی شور کہ منزل قریب آ پہنچی
کبھی گلے کہ ابھی بیڑیاں ہیں پائوں میں
میں جانتا ہون،میں جانوں گا، میں نہ جان سکا
یہ غلغلے ہیں ان اسرار کے گدائوں میں
Comment