کنارے آب کھڑاخود سے کہہ رہا ہے کوئی
گماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
ہوا نے توڑ کے پتا زمیں پر پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی
بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی
یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی
درخت راہ بتلائیں ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
چھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند
کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی
یہ آسماں سے ٹوٹا ہواستارہ ہے
کہ دشتِ شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی
مکاں اور نہیں ہے ، بدل گیا ہے مکیں
اُفق وہی ہے مگرچاند دوسرا ہے کوئی
شکیب دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر
دیارِچشم میں کیا آج رِت جگا ہے کوئی
شکیب جلالیگماں گزرتا ہے یہ شخص دوسرا ہے کوئی
ہوا نے توڑ کے پتا زمیں پر پھینکا ہے
کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی
بٹا سکے ہیں پڑوسی کسی کا درد کبھی
یہی بہت ہے کہ چہرے سے آشنا ہے کوئی
درخت راہ بتلائیں ہلا ہلا کر ہاتھ
کہ قافلے سے مسافر بچھڑ گیا ہے کوئی
چھڑا کے ہاتھ بہت دور بہہ گیا ہے چاند
کسی کے ساتھ سمندر میں ڈوبتا ہے کوئی
یہ آسماں سے ٹوٹا ہواستارہ ہے
کہ دشتِ شب میں بھٹکتی ہوئی صدا ہے کوئی
مکاں اور نہیں ہے ، بدل گیا ہے مکیں
اُفق وہی ہے مگرچاند دوسرا ہے کوئی
شکیب دیپ سے لہرا رہے ہیں پلکوں پر
دیارِچشم میں کیا آج رِت جگا ہے کوئی
Comment