اشوب
خدا کو بلاو
کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے
میں مٹی کا انسان ہوں
میں آسماں کا فرشتہ نہیں
اس لیے معتبر بھی نہیں ہوں
خدا اپنی آنکھوں سے دیکھے
کہ سر جو صدیوں کے سجدوں سے زخمی ہیں
اب آسماں کی طرف اٹھ رہے ہیں
وہ دیکھے
کہ آنکھوں میں اب حسن دریافت کرنے کی ساری چمک بجھ چکی ہے
کھنڈر کے دریچوں سے اخر کھنڈر کے سوا کیا نظر آسکے گا
وہ دیکھے
کہ جو لب فقط ذکر رب یا محبت کے اظہار یا پھر غنا کے لیے وا ہوئے
اج اول تو کھلتے نہیں
اور کھلتے ہیں، تو شرارے اگلتے ہیں
وہ اپنی انکھوں سے دیکھے
کہ سینے۔۔۔۔دفینے تھے جو کبریائی کے اسرار کے
اب وہاں وہم کے اژد ہے
کینچلی پر بدلتے ہیںکینچلی
سہسہاتے ہیں، پھنکارتے ہیں
حسین جسم، روحوں کے تاریک بنجر میں
حد نظر سے برے اک دیے کی طرف بڑھ رہے ہیں
مگر ہر قدم پر یہ حد نظر اک قدم اور ہٹتی چلی جا رہی ہے
جو انسان کے ذہن کی شاہرائیں تھیں
ان پہ یقینوں کے کشتوں کے پشتے لگے ہیں
جو اس کے تصور کے فردوس تھے
ریزہ ریزہ پڑے ہیں
جو اس کی پرستش کے معیار تھے
نوک خنجر کی مانند ان راستوں پر گڑے ہیں
جو یادش بخیر اک زمانے میں سیدھی خدا کی طرف جا رہی تھیں
مگر اب فقط دائروں میں بھٹکتی ہوئی رہ گئی ہیں
خدا کو بلاو
کہ اس کا یہ شہکار فن
اپنے محور سے ہٹنے لگا ہے
وہ چھوٹوں بڑوں اور نیکوں بدوں کے قبیلوں میں بٹنے لگا ہے
وہ جو عرش تک پھیل جانے کے گر سوچتا تھا
سکڑنے لگا ہے ، سمٹنے لگا ہے
وہ آشوب جو اس نے اپنی ذکاوت سے پیدا کیا تھا
اسی سے نمٹنے لگا ہے
۔۔۔
خدا کو بلاو
کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھے
میں مٹی کا انسان ہوں
میں آسماں کا فرشتہ نہیں
اس لیے معتبر بھی نہیں ہوں
خدا اپنی آنکھوں سے دیکھے
کہ سر جو صدیوں کے سجدوں سے زخمی ہیں
اب آسماں کی طرف اٹھ رہے ہیں
وہ دیکھے
کہ آنکھوں میں اب حسن دریافت کرنے کی ساری چمک بجھ چکی ہے
کھنڈر کے دریچوں سے اخر کھنڈر کے سوا کیا نظر آسکے گا
وہ دیکھے
کہ جو لب فقط ذکر رب یا محبت کے اظہار یا پھر غنا کے لیے وا ہوئے
اج اول تو کھلتے نہیں
اور کھلتے ہیں، تو شرارے اگلتے ہیں
وہ اپنی انکھوں سے دیکھے
کہ سینے۔۔۔۔دفینے تھے جو کبریائی کے اسرار کے
اب وہاں وہم کے اژد ہے
کینچلی پر بدلتے ہیںکینچلی
سہسہاتے ہیں، پھنکارتے ہیں
حسین جسم، روحوں کے تاریک بنجر میں
حد نظر سے برے اک دیے کی طرف بڑھ رہے ہیں
مگر ہر قدم پر یہ حد نظر اک قدم اور ہٹتی چلی جا رہی ہے
جو انسان کے ذہن کی شاہرائیں تھیں
ان پہ یقینوں کے کشتوں کے پشتے لگے ہیں
جو اس کے تصور کے فردوس تھے
ریزہ ریزہ پڑے ہیں
جو اس کی پرستش کے معیار تھے
نوک خنجر کی مانند ان راستوں پر گڑے ہیں
جو یادش بخیر اک زمانے میں سیدھی خدا کی طرف جا رہی تھیں
مگر اب فقط دائروں میں بھٹکتی ہوئی رہ گئی ہیں
خدا کو بلاو
کہ اس کا یہ شہکار فن
اپنے محور سے ہٹنے لگا ہے
وہ چھوٹوں بڑوں اور نیکوں بدوں کے قبیلوں میں بٹنے لگا ہے
وہ جو عرش تک پھیل جانے کے گر سوچتا تھا
سکڑنے لگا ہے ، سمٹنے لگا ہے
وہ آشوب جو اس نے اپنی ذکاوت سے پیدا کیا تھا
اسی سے نمٹنے لگا ہے
۔۔۔
Comment