شبنم شکیل۔۔مشہور شاعر عابد علی عابد کی بیٹی تھیں۔۔جب میں پنڈی تھا تب شاید ایک دو دفعہ ملاقات ہوئی تھی جی ایٹ آئی آیم کالج کی پرنسپل تھیں ۔۔صاحب طرز کلام نگار اور شاعرہ تھیں۔۔سنا ے کل وفات پا گئں ہیں حق مغفرت کرئے اور غریق رحمت کرے۔۔آمین
پروفیسر بےتاب تابانی عفہ عنہہ
اکثر ایسے کام کئے ہیں جن میں کوئی دکھ نہ سکھ اکثر ایسے لوگ ملے ہیں جن س بیر نہ پیار دشمن نہ دوست، اکثر اُن سے باتیں کی ہیں مہمل اور بے رس ایک گناہ بے لذت میں ساری عمر گنوائی اسی لئے تو بنجر دن اور بنجرراتوں میں دل کی اس بے اب کیاری میں وہ پھول کھلے ہیں جن میں رنگ نہ بُو۔۔یہ پھولوں کو گلدستہ ان لوگوں کے نام
شبنم شکیل
غزل
اکثر اپنے در پئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرےسو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہوجاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرم عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم
جھوٹا وعدہ بھی اگر کرتی ہے ملنے کا خوشی
وقت سے پہلے بہت تیار ہو جاتے ہیں ہم
کچھ بہی خواہوں کے ہاتھوں ہوتی ہے دشنام کی
سنگ باری اس پہ مسمار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعوے دار ہو جاتے ہیں ہم
زندگی سے دور کر دیتا ہے اکثر خوف مرگ
اپ اپنی زندگی پر بار ہو جاتے ہیں ہم
اک ذرا سی بات اور پھر اشک تھمتے نہیں
لہر سی اک دل میں اور سرشار ہوجاتے ہیں ہم
پروفیسر بےتاب تابانی عفہ عنہہ
اکثر ایسے کام کئے ہیں جن میں کوئی دکھ نہ سکھ اکثر ایسے لوگ ملے ہیں جن س بیر نہ پیار دشمن نہ دوست، اکثر اُن سے باتیں کی ہیں مہمل اور بے رس ایک گناہ بے لذت میں ساری عمر گنوائی اسی لئے تو بنجر دن اور بنجرراتوں میں دل کی اس بے اب کیاری میں وہ پھول کھلے ہیں جن میں رنگ نہ بُو۔۔یہ پھولوں کو گلدستہ ان لوگوں کے نام
شبنم شکیل
غزل
اکثر اپنے در پئے آزار ہو جاتے ہیں ہم
سوچتے ہیں اس قدر بیمار ہو جاتے ہیں ہم
مضطرب ٹھہرےسو شب میں دیر سے آتی ہے نیند
صبح سے پہلے مگر بیدار ہوجاتے ہیں ہم
نام کی خواہش ہمیں کرتی ہے سرگرم عمل
اس عمل سے بھی مگر بیزار ہو جاتے ہیں ہم
جھوٹا وعدہ بھی اگر کرتی ہے ملنے کا خوشی
وقت سے پہلے بہت تیار ہو جاتے ہیں ہم
کچھ بہی خواہوں کے ہاتھوں ہوتی ہے دشنام کی
سنگ باری اس پہ مسمار ہو جاتے ہیں ہم
بھول کر وہ بخش دے گر روشنی کی اک کرن
دائمی شہرت کے دعوے دار ہو جاتے ہیں ہم
زندگی سے دور کر دیتا ہے اکثر خوف مرگ
اپ اپنی زندگی پر بار ہو جاتے ہیں ہم
اک ذرا سی بات اور پھر اشک تھمتے نہیں
لہر سی اک دل میں اور سرشار ہوجاتے ہیں ہم
Comment