یاد آئو گے یاد کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
ہجر کے غم آباد کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
دھیان لگا کر بیٹھیں گے ہم، لوگوں سے فرصت پا کر
وعدوں کی امدار کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
جو لمحہ بھی بیر رکھے گا دل لمحوں کے رشتوں سے
وہ لمحہ برباد کریں گے جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
تم ٹھکرا دو گی ہر خسرو کو رشک شیریں بن کر
ہم کار فرہاد کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
جب ہونٹوں پر لگ جائے گا پہرا، تو ہم بھی اخر
سینے میں فریاد کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
ہجر سخن جب کر نہ سکین گے، شام ملال محجوری
سانسوں کا برباد کریں گے۔۔جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
جب تنہائی میں تنہائی ، پا نہ سکیں گے چار طرف
اس کو ہم ایجاد کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
خون ہی تھوکیں گے ہم جانم، جانم جاناں،جانم جاناں”
یعنی تمہیں ازاد کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
جب تعمیر خواب نہ ہوگی انکھوں کی دل بستی میں
خود کو ے بنیاد کریں گے، جانے کیا کچھ ٹھہری تھی
Comment