دھرتی کا اندر
اک بچہ
مرے دل دریچوں میں
چپ سادھے بیٹھا ہے
شبنم کی بوندیں
جو اس کے رخساروں پر
میں نے دیکھی ہیں
بھوک دیس کا نوحہ ہیں
بھیک کو پھیلے
اس کے ننھے ہاتھوں کی
الجھی لکیریں
میری آنکھوں میں
سوال بنتی رہتی ہیں
ان الجھی ریکھاؤں کو
برہما لوک سے
کب کوئ سلجھانے اترے گا
سکھ کا سارا ناواں
دھرتی کا اندر
اپنی مٹھی میں رکھ کر
سیتا کا بلی دان
راون تپسیا کا بردان سمجھے
سیاست کی دوکان چمکاءے بیٹھا ہے
Comment