نثار میں تیری گلیوں کے
نثار میں تیری گلیوں کئ اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کہ چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے، جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم َ بست و کشاد
کہ سنگ و خس مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کے دست ِ بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس، مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
تیرے فراق میں یوں صبح شام کرتے ہیں
بجھا روزنِ زنداں تودل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہو گی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر تیرے رخ پہ بکھر گئی ہو گی
غرض تصورِ شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفتہ سایہ دیوار و در میں جیتے ہیں
یونہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے، نہ آپنی ریت نئی
یونہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
تیرے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدای تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج ِ گردش ِ لیل و نہار رکھتے ہیں
Comment