ایک نظم زمستان( سرما) کے ساتھ ھاضر ہوں پہلے بھی ایک دفعہ شئیر کی تھی لیکن اج پھر سے پڑھی تو شئیر کو جی چاہا امید ہے پسند ائے گی۔۔اس نظم میں ایک لفظ ‘‘زمہریری’ استعمال ہوا ہے جسکے معنہی زمین کے اوپر موجود کرہ ہوائی کا سرد ترین ھصہ ہے۔۔اج سارا دن بارش اور سخت زمہریری ہوائیں چلتی رہیں اور چل رہیں ہیں اسی حوالے سے یہ خوبصورت نظم اپ سب کے ذوق کے نام۔۔
زمستان
نہیں شوریدگان شہر میں سوز جان اب کے
ہیں شامیں سوختہ جانوں کی بے شور فغاں اب کے
ہیں شوق گرمی آغوش کے جذبے زمستانی
شب اند شب ہو جیسے برفباری کا سماں اب کے
کوئی لحجہ یہاں شعلے پہن کے اب نہیں اتا
نہں سایہ فگن محفل پہ سانسوں کو دھواں اب کے
سرود و ساز ہیں سرما فروش حلقہ یاراں
دلوں میں زمہریری کپکپی ہے پر فشاں اب کے
ستم ہے رشتہ ہائے آشتی کی پاسداری
مرے یارو! تمہارے اور خدا کے درمیاں اب کے
لباس آتش انکار ابلیسی جلا ڈالا
یقیں کے ستر پوشان گماں نے بے گماں اب کے
ہوئی گم اے گروہ دل تپاں، آتش بجاں آخر
ترے احساس اور انفاس کی سوزش کہاں اب کے
ہے اک خورشید یخ بستہ کا پرتو خاک پر غلطاں
ہیں زندہ دھوپ کو ترسی ہوئی بستیاں اب کے
سیاہی کی لپک ہے اور ہیں آتش کدے اپنے
کہاں پائیں فروغ چشم جاں زردشتیاں اب کے
درو دیوار یخ ہیں اور ہوائیں زمہریری ہیں
دلوں کی فصل برفانی ہے اور شیوے زمستانی
وفائین زمہریری ہیں، جفائیں زمہریری ہیں
کسے کس سے گلہ ہو اور گلے کا کیا صلہ ٹھہرے
سماعت یخ زدہ ہیں التجائیں زمہریری ہیں
کیا خون جگر کا خوش گمانی میں زیاں ہم نے
شفق کے رنگ لکھے داتساں در داستاں ہم نے
فضا ایسی برفانی کے سانسیں جم کے رہ جائیں
نہ ک ہوتی سینے کی گرمی رایگاں ہم نے
نفس ٹھٹھرے ہوئے ہیں شعلہ ہائے لب کے موسم میں
مجھے سردی زیادہ ہی لگے گی اب کے موسم میں
:rose
زمستان
نہیں شوریدگان شہر میں سوز جان اب کے
ہیں شامیں سوختہ جانوں کی بے شور فغاں اب کے
ہیں شوق گرمی آغوش کے جذبے زمستانی
شب اند شب ہو جیسے برفباری کا سماں اب کے
کوئی لحجہ یہاں شعلے پہن کے اب نہیں اتا
نہں سایہ فگن محفل پہ سانسوں کو دھواں اب کے
سرود و ساز ہیں سرما فروش حلقہ یاراں
دلوں میں زمہریری کپکپی ہے پر فشاں اب کے
ستم ہے رشتہ ہائے آشتی کی پاسداری
مرے یارو! تمہارے اور خدا کے درمیاں اب کے
لباس آتش انکار ابلیسی جلا ڈالا
یقیں کے ستر پوشان گماں نے بے گماں اب کے
ہوئی گم اے گروہ دل تپاں، آتش بجاں آخر
ترے احساس اور انفاس کی سوزش کہاں اب کے
ہے اک خورشید یخ بستہ کا پرتو خاک پر غلطاں
ہیں زندہ دھوپ کو ترسی ہوئی بستیاں اب کے
سیاہی کی لپک ہے اور ہیں آتش کدے اپنے
کہاں پائیں فروغ چشم جاں زردشتیاں اب کے
درو دیوار یخ ہیں اور ہوائیں زمہریری ہیں
دلوں کی فصل برفانی ہے اور شیوے زمستانی
وفائین زمہریری ہیں، جفائیں زمہریری ہیں
کسے کس سے گلہ ہو اور گلے کا کیا صلہ ٹھہرے
سماعت یخ زدہ ہیں التجائیں زمہریری ہیں
کیا خون جگر کا خوش گمانی میں زیاں ہم نے
شفق کے رنگ لکھے داتساں در داستاں ہم نے
فضا ایسی برفانی کے سانسیں جم کے رہ جائیں
نہ ک ہوتی سینے کی گرمی رایگاں ہم نے
نفس ٹھٹھرے ہوئے ہیں شعلہ ہائے لب کے موسم میں
مجھے سردی زیادہ ہی لگے گی اب کے موسم میں
:rose
Comment