دل میں اور دنیا میں اب نہیں ملیں گے ہم
وقت کے ہمیشہ میں اب نہں ملیں گے ہم
اپنی بے تقاضائی اپنی وضع ٹھہری ہے
حال پر تقاضا میں اب نہیں ملیں گے ہم
بود یا نبود اپنی ایک گماں تھی اپنا
یعنی ‘‘ یا’’ میں اور ‘‘یا ‘‘ میں اب نہیں ملیں گے ہم
ایک خواب تھا دیروز ایک فسون تھا امروز
اور کسی بھی فردا میں اب نہیں ملیں گے ہم
اب جنون ہے اپنا گوشہ گیر تنہائی
سو دیار و صحرا میں اب نہیں ملیں گے ہم
حرف زن نہ ہونگے لب جاوداں خموشی میں
ہاں کسی بھی معنی میں اب نہیں ملیں گے ہم
زندگی شتاباں ہے شہر خفتہ کی جانب
شہر شور وغوغا میں اب نہیں ملیں گے ہم
اک حال ِ بے حالی دل کو طور ٹھہرا ہے
حال ِ حالت افزا میں اب نہیں ملیں گے ہم
Comment