کچھ ایسی ہی لگی ہے چوٹ میرے رازِ پنہاں پر
جو آنسو آنکھ سے چل کر رکا ہے نوکِ مژگاں پر
نہیں آغازِ خط اے ہم نشیں رخصارِ جاناں پر
یہ قدرت نے لکھا ہے حاشیہ صفحاتِ قرأں پر
یہ فصلِ گل حقیقت میں بری شے ہے کہ دیکھا ہے
اسی موسم میں اکثر برق گرتی ہے گلستاں پر
کچھ ایسا لطف پایا ہم نشیں ہم نے اسیری میں
کہ بیٹھے ہیں رہا ہوکر بھی اب تک بابِ زنداں پر
نرالا ڈھنگ پایا ہے انھوں نے ذبح کرنے کا
کہ دھبہ تک نہیں دیکھا کسی نے انکے داماں پر
خیال آئے گا ان کو جب کبھ اپنی جفاؤں کا
تو ہاتھ اپنا کریں گے صاف اپنے جیب و داماں پر
دھواں گھٹتا ہے آہوں کا مرے سینے میں جب اٹھ کر
تو دل کا عرق کھنچ آتا ہے ہمدم نوکِ مژگاں پر
زمیں کیا اور دنیا کیا کفِ افسوس ملتی ہے
فلک آنسو بہاتا ہے ہماری شامِ ہجراں پر
ق
کم از کم معتکف ہو اور زاہد ہو نمازی ہو
گمانِ پارسائی ہو تو ہو ایسے مسلماں پر
ان اپنے دست و پا کو قابو میں ہم لا نہیں سکتے
تو پھر کیا زور چل سکتا ہمدم طائرِ جاں پر
اجل سے مطمئن ہوں وقت سے پہلے نہ آئے گی
بھروسہ کس طرح ہو اے مسیحہ تیرے درماں پر
Comment