یہ کیسی ریت ہے راہی
کہ جس میں درد ایسا ہے
کہ جب محسوس ہوتا ہے
کوئی ہمدرد نہیں ہوتا
یہ کیسا کھیل دنیا کا
کہ جس میں جیت بھی جاؤ
سفر آخر نہیں ہوتا
سمہ چاہے بدل جائے
فضا ذروں میں ڈھل جائے
نشان کی موت ہے نہ پید
فضا سوگ ہے برپا
خوشی زندان میں ہے قید
ہوائیں ساتھ میں اپنے ہزاروں تیر لیتی ہیں
تبسم نوچ لیتی ہے
خوشی کی چھوٹی چھوٹی موتیوں کو
جانے کیسے کھوج لیتی ہیں
حسین و دلنشین پودے
خزاں کے وار سہتے ہیں
سسکتے ہیں، بلکتے ہیں
مگر چپ چاپ رہتے ہیں
درختوں پر اداسیوں کی
جیسے بیل ہے چھائی
یہ کیسا کھیل ہے راہی
ہر اک چہرے پہ
تہہ در تہہ کئی پردے
زباں خاموش ہے سب کی
کوئی آکر دعا کردے
کوئی تو سکوت رفتگاں کو
توڑ کے جائے
کوئی تو آئے
جو ٹوٹا ہوا پل جوڑ کے جائے
جدھر دیکھو ہے مایوسی
جدھر جاؤ ہے تنہائی
نہ ہی موسم سہانا ہے
نہ کلیوں میں بڑنائی
نہ ہی افکار میں تابندہ
نہ ہی سوچوں میں رعنائی
مزار دل ہوا خستہ
ہے ہر اک نفس لب بستہ
بڑی مشکل میں ہیں مولا
تیرا ہی آسرا ہے اب
تجھی سے مانگتے ہیں رب
جہاں دیکھیں وہ دلدل ہے
جہاں جائیں وہیں کھائی
یہ کیسی ریت ہی راہی
Comment