غزل
آج کی صبح میں آثار قیامت کے بھی ہیں
رنگ آنکھوں میں نہ دیکھی ہوئی ساعت کے بھی ہیں
لوگ چلتے ہوئے ٹکراتے ہیں دیواروں سے
کچھ اندھیرا بھ ہے کچھ عیب بصارت کے بھی ہیں
یہ الگ بات کہ انصاف طلب کوئی نہیں
وا بڑی دیر سے دروازے عدالت کے بھی ہیں
چاہتے بھی ہوں تو کس منہ سے دعائیں مانگیں
ہم گنہ گار گلہ مند مشیت کے بھی ہیں
نہ رہی تاب و تواں جب کھلا مجھ پر
چند لمحے مری تقدیر میں فرصت کے بھی ہیں
عین ممکن ہے کہ ہر عشق ہوس میں بدلے
کیا کِیا جائے، تقاضے بشریت کے بھی ہیں
دوستوں نے مرے بارے میں بہت باتیں کیں
انہی پھولوں میں کئی سنگ، ملامت کے بھی ہیں
وہ کوئی اور ہے جس نے تجھے چاہا ہوگا
شہر میں لوگ بہت مری صورت کے بھی ہیں
:rose
Comment