دوسرا رخ
جھونکا گلی کے موڑ سے نکلا، تو دفعِتہ
پیپل کی ایک شاخ کے پتے الٹ گئے
پتوں کو سامنے سے تو دیکھا ہزار بار
لیکن اس انقلاب کی مجھ کو خبر نہ تھی
اک رخ سے دیکھیے تو فقط اک رنگ ہے
لیکن اک اور رنگ بھی ہے ماورائے رنگ
جس کا سراغ صرف انہی کو ملا ، جنہیں
موج ہوا کے دست ِ رسا کا شعور ہے
انسان ہو، خدا ہو حقیقت ہو یا گماں
محسوس ہو رہا ہے کہ اک رخ پہ ہیں رواں
لیکن ہوا کی زد میں جب آتی ہے اُن کی ذات
اک اور ہی رخ پہ گھمونے لگتی ہے کائنات
1963 احمد ندیم قاسمی
Comment