Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا


    :rose
    دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا
    چور سے ڈرتے تھے لیکن گھر کا دروازہ نہ تھا


    گرچہ وہ اباد ہے تار ِ رگ جاں کے قریب
    ڈھونڈتے اس کو کہاں جس کو کہیں دیکھا نہ تھا


    حسن کی رعنائیاں تھی چلمنوں کی اوٹ تک
    جب اٹھا پردہ تو کوئی دیکھنے والا نہ تھا


    چاندنی کے شہر میں پہنچے تھے ہم اڑتے ہوئے
    پاوں میں چھالے نہ تھے اور راہ میں صحرا نہ تھا



    حسرتیں رہنے لگیں غول بیاباں کی طرح
    آرزئوں کا نگر بسنے ابھی پایا نہ تھا


    پیاسی آنکھوں میں کوئی انسو نہ آیا تھا ابھی
    خشک تھی دل کی زمیں پانی ابھی برسا نہ تھا



    اس میں کیا کیا لذتیں تھیں کیسے کیسے رنگ تھے
    وہ تو اک دنیا تھی یارو ہجر کا لمحہ نہ تھا



    آہ وہ پیکر جسے دیتا رہا میں تیرا نام
    وہ تو میں خود تھا اگرچہ میں نے پہچانا نہ تھا



    ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں روشنی ہی روشنی
    وہ بہاریں تھیں کہ اب کے باغ میں رستہ نہ تھا


    بے خودی ایسی کہ بس تنہائی ہی تنہائی تھی
    کیا خبر کل دل بھی میرے سینے میں تھا یا نہ تھا




    اب تو ترس جاتا ہوں ایک ایک آنسو کے لیے
    اس قدر سوکھا ہوا تو آنکھ کا دریا نہ تھا


    اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
    میں اسی صحرا میں رہتا تھا مگت تنہا نہ تھا



    شاخ کی آنکھیں خزاں کے رتجگے سے چور تھیں
    برگ کے سینے میں دل تھا جو ابھی دھڑکا نہ تھا


    وہ مری صبحوں کا تارا وہ مری راتوں کا چاند
    مرے دل کی روشنی تو تھا مگر میرا نہ تھا


    اب تو وہ جیسے رگ و پے میں سرائیت کر گیا
    دل مرا بے تاب تھا لیکن کبھی ایسا نہ تھا



    زندگی شہزاد دکھلانے لگی وہ روپ رنگ
    اب تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں جیتا نہ تھا







    شہزاد احمد
    :(

  • #2
    Re: دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا

    very nice............

    Comment

    Working...
    X