میں اسکی آہٹیں چن لوں میں اس سے بول کر دیکھوں
گلی میں کون پھرتا ہے دریچہ کھول کر دیکھوں
گلی میں کون پھرتا ہے دریچہ کھول کر دیکھوں
اور اب یہ سوچتا ہوں کیا تہہِ داماں پڑے رہنا
کسی مشعل کی لو ٹھہروں ہوا میں ڈول کر دیکھوں
یونہی شاید تسلی ہو میری خستہ مزاجی کی
میں اپنی خاک ہی کوئے ہنر میں رول کر دیکھوں
یہ کیسی بید مجنوں کی تمنا مجھ میں در آئی
کہ میں بھی خود میں پیدا یہ انا کا جھول کر دیکھوں
میرے بھی سر پہ رکھا ہے جنوں اسباب کی صورت
ملے فرصت تو اس گٹھڑی کو میں بھی کھول کر دیکھوں
نہ وہ آوارگی مجھ میں نہ وہ آشفتگی مجھ میں
میں کس معیار پر اپنی وفا کو تول کر دیکھوں
عباس تابش
Comment