Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن







  • #2
    Re: رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن

    oye hoye tumki kher.....
    میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

    Comment


    • #3
      Re: رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن

      جگمگاہٹ یہ جبیں کی ہے کہ پھوٹی ہے
      مسکراہٹ ہے تیری، صبح چمن کیا کہنا

      بہت عمدہ جی۔۔۔

      میں نعرہ مستانہ، میں شوخی رندانہ

      Comment


      • #4
        Re: رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن

        واہ واہ کیا لاجواب غزل ہے بانیاز جی خوش ہوگیا۔۔واہ بہت خوب:rose


        یہ غزل اردو کے نامور شاعر فراق گھورکپھوری کی ہے اہ اس دور میں غزل کی رویات
        کا سب سے نکھرا اور گہرا شعور رکھتے ہیں۔۔ان کی نغمگی گو دھیرے سروں میں
        مگر اس کی گونج آفاقی ہے۔۔محسور کن شاعری سوز و گداز کا ایسا
        امتراج ایسی گھلاوٹیں جس کو محسوس کر کے دیوتائوں کی پاکیزہ
        آنکھوں میں بھی انسو اجائیں


        بہت عرصہ بعد یہ غزل پھر سے یاد دلانے کا شکریہ لیکن یہ غزل مکلمل نہیں
        میں اس کو مکلمل کر دیتا۔۔




        رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن کیا کہنا
        کروٹیں لیتی ہیں صبح چمن کیا کہنا

        مدھ بھری انکھوں کی السائی نظر پچھلی رات
        نیند میں ڈوبی ہوئی چندر کرن کیا کہنا


        باغ جنت پہ گھٹا جیسے برس کر کھل جائے
        سوندھی سوندھی تری خوشبو بدن کیا کہنا

        ٹھیری ٹھیری سی نگاہوں میں یہ وحشت کی کرن
        چونکے چونکے سے یہ آہوئے ختن کیا کہنا

        جیسے لہرائے کوئی شعلہ کمر کی یہ لچک
        سر بسر اتش سیال بدن کیا کہنا

        جلوہ و پردہ کا یہ رنگ دم نظارہ
        جس طرح ادھ کھلے گھونگھٹ میں دلہن کیا کہنا

        جگمگاہٹ یہ جبین کی ہے کہ پو پوٹھتی ہے
        مسکراہٹ ہے تری صبح چمن کیا کہنا

        دل کے آئنے میں اس طرح اترتی ہے نگاہ
        جیسے پانی میں لچک جائے کرن کیا کہنا

        لہلاتا ہوا یہ قد یہ لہکتا ہوا جوبن
        زلف سو مہکی ہوئی راتوں کا بن کیا کہنا

        یہ نگاہوں کی کھنک یہ تیغ ادا کی جھنکار
        حسن سر تا بہ قدم بولتا رن کیا کہنا

        تو محبت کا ستارہ تو جوانی کا سہاگ
        حسن لو دیتا ہوا لعل یمن کیا کہنا


        تیتی اواز سویرا تری باتیں تڑکا
        انکھیں کھل جاتی ہیں اعجاز سخن کیا کہنا

        نیلگوں شبنمی کپڑوں میں بدن کی یہ جوت
        جیسے چھنتی ہو ستاروں کی کرن کیا کہنا



        میری ہاتھوں چٹھے پروان تو اے پریم کی بیل
        پورے جوبن پہ ہے جیسے مرا فن کیا کہنا





        بہت خوش رہیں بانیاز


        :rose

        پروفیسر بےتاب تابانی

        :(

        Comment


        • #5
          Re: رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن

          اتنی شستہ اردو
          اور اتنے پر معنی الفاظ اب ڈھونڈے سے بھی نہیںملتے
          بانیاز نے جب یہ غزل شئیر کی تھی تبھی میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ یہ کسی پرانے شاعر کی کارہ گری ہے اب کے نہ شعر اُس طرح کی اردو میں کلام لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی قارئین وہ اردو سمجھ سکتے ہیں۔

          ڈاکٹر فوسٹس صاحب آپ کی میر بانی کہ آپ نے نہ صرف اس غزل کے شاعر کا نام بتا دیا بلکہ غزل بھی مکمل کر دی۔
          :star1:

          Comment


          • #6
            Re: رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن

            فراق کے کلام سے کچھ میں بھی شئیر کرتا اپ کے ساتھ امید ہے پسند ائے گا اپ کو



            یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات
            یاد آرہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات


            ہم اہل انتظار کے آہت پہ کان تھے
            ٹھنڈی ہوا تھی غم تھا ترا، ڈھل چلی تھی رات


            اس جا تری نگاہ مجھے لے گئی جہاں
            لیتی ہو جیسے سانس یہ بےجان کائنات


            دریا کے مدو جزر بھی پانی کے کھیل ہیں
            ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات

            اٹھ بندگی سے مالک تقدیر بن کے دیکھ
            کیا وسوسہ عذاب کا کیا کاوش نجات

            اک عمر کٹ گئی ترے انتظار میں
            ایسے بھی ہیں کہ کٹ نہ سکی جن سے ایک رات


            مجھ کو تو غم نے فرصت غم بھی نہ دی فراق
            دے فرست حیات نہ جیسے غم حیات




            :rose





            :(

            Comment


            • #7
              Re: رس میں ڈوبا ہوا لہراتا بدن

              واہ واہ ڈاکٹر صاحب کیا بات ہے جناب بہت بہت شکریہ سر جی بہت نوازش
              جناب آپ نے تو واقعی کمال کردیا بہت خوشی ہوئی جناب

              اور جو دوسرا کلام آپ نے پیش کیا

              اس کے یہ دو شعر کیا ہی کمال ہیں*

              دریا کے مدو جزر بھی پانی کے کھیل ہیں
              ہستی ہی کے کرشمے ہیں کیا موت کیا حیات

              اٹھ بندگی سے مالک تقدیر بن کے دیکھ
              کیا وسوسہ عذاب کا کیا کاوش نجات


              بہت بہت بہت عمدہ جناب





              Comment

              Working...
              X