لوگو سنو وہ کیا مجھے کل رات دے گیا
کاغذ کے پنکھ، ابر کے جذبات دے گیا
بے چینے کی دھکتی سلاخیں وجود کو،
ٹھنڈی ترین راتوں کو برسات دے گیا
نقشہ کٹا پھٹہ ہوا شہربرف میں،
اشکوں کا ایک سفینہ میرے ھاتھ دے گیا
مجھ سے ذرا سا پیار کا کر کے مطالبہ،
شدت پسند درد کی بہتات دے گیا
روشن بہار کے دکھا کے سبز باغ،
اندھی خزاں کے دائمی خدشات دے گیا
اب دنیا میں کسی سے گذارا نہیں میرا،
اس درجہ خود پسند خیالات دے گیا
میں نے وفور غم میں مٹا دی انا کی حد،
وہ مسکرایا اور مجھے مات دے گیا
ہم کیسے ہجر سہتے دسمبر کے بعد بھی؟
گہرا ترین زخم بڑا ساتھ دے گیا
وہ سوچتے تھے غم کے فلک پہ کھڑے ہیں وہ،
ایک دوست آج قیس کے خیالات دے گیا
Comment