مرے کچھ ملنے والے پوچھتے ہیں
مجھے ان جگنوؤں پھولوں کو اور ساون کی رم جھم کو ذرا تصویر کرنا ہے
جمالِ یار کے کتنے ہی رنگوں کو، خطوں کو خال کو تصویر کرنا ہے
کبھی تاریک راتوں میں
کہ جب سارے جہاں کو روشنی سے بیر ہو جائے
تو سورج کے اُبھرنے تک دیے کی لو بچانا ہے
کبھی خوشبو کی سنگت میں ہواؤں میں بکھرنا ہے
کبھی زنجیر پاؤں میں پہن کر رقص کرنا ہے
کبھی نقاد کی نظروں میں تلنا ہے
کبھی میرے قلم کے زور سے سچائی کھُلنا ہے
مجھے ہر روز جینا ہے، مجھے ہر روز مرنا ہے
کئی سہمے ہوئے لوگوں کا دُکھ محسوس کرنا ہے
کئی پلکوں پہ رُکنا ہے، کئی آنکھوں سے بہنا ہے
اک اچھی نظم کہنا ہے
مگر آخر صلیب و دار کے رستے
کہیں تاریخ کے اوراق میں جا دفن ہونا ہے
کہ انساں وقت کے ہاتھوں میں مٹی کا کھلونا ہے
Comment